کتاب: محدث شمارہ 31 - صفحہ 16
پروفیسر منظور احسن عباسیؔ
سزائے مرتد پر چند مغالطے اور ان کا دفعیہ
( قسط ۳)
مؤلفِ کتاب نے محض اختلافی نکتوں پر اپنے دلائل کی بنا رکھی ہے۔ متفقہ فیصلہ کو نظر انداز کر دیا ہے۔ لیکن احادیث کی تمام بحث میں کوئی ایک نظیر بھی ایسی نہیں ہے جس سے ظاہر ہو کہ کسی مرتد کو ارتداد کی حالت میں زندہ رہنے کا حق ہے۔ اختلافات کی صورتِ تطبیق یہ ہے کہ مرتد کو مہلت توبہ دی جائے تو بہتر ہے۔ نہ بھی دی جائے تو چنداں مضائقہ نہیں۔ عورت کے لئے یہ حکم ہے کہ اگر مرتدہ سرکشی پر اتر آئے تو وہ بھی مستوجبِ قتل ہے ورنہ اسے قید میں رکھا جائے گا اور توبہ کر لے تو مرد و عورت دونوں کے لئے معافی کی اجازت ہے اور یہ تمام مسائل الفاظ و معانی قرآن و حدیث سے اخذ فرمائے گئے ہیں۔
رہا احادیث کے قابلِ تاویل ہونے کا معاملہ سو اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ احادیث کے مطالب کی تاویل و تعبیر کی جا سکتی ہے۔ یہ عمل قرآنی آیات میں بھی نافذ ہے لیکن تاویل کے بھی کچھ اصول ہیں۔ ایسی تاویل جس کے نہ الفاظ متحمل ہوں اور نہ اس کا مفہوم ہی درست ہو سکے، تفسیر بالرائے کے مصداق ہے جس پر سخت وعید آئی ہے۔ اس کے لئے تاویل کرنے والے کی ذہنی اور علمی صلاحیت، اس کی بے لوثی اور اخلاقی بلند فطری اور حقیقت پسندی کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ ایک جاہل مرد نے جس کا نام مجرم تھا، آیت کَذٰلِکَ نَفْعَلُ بِالْمُجْرِمِیْنَ کا مطلب یہ سمجھا کہ اللہ تعالیٰ ان تمام لوگوں کو جن کا نام مجرم ہے ہلاک کر دے گا۔ ایک شر پسند عالم رحمٰن یمامہ (جو مسیلمہ کذاب کے نام سے مشہور ہے)آیت بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ میں رحمٰن سے اپنی ہستی مراد لیتا ہے۔ ایک احمق لا تقربوا الصلوٰۃ کا یہ مطلب بیان کرتا ہے کہ کسی کو نماز نہیں پڑھنی چاہئے۔ ایک پڑھے لکھے شخص کا دعویٰ ہے کہ خاتم النبیین کے معنے یہ ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی نہیں تھے بلکہ نبیوں کی مہر تھے کہ جس پر مہر لگا دی اسے نبی بنا دیا۔ ایک شخص کہتا ہے کہ حدیث من بدل دینه فاقتلوہ فرمودۂ رسول ہے ہی نہیں۔ یہ کسی ملا کا قول ہے۔ جناب مؤلف کتاب نے اس شخص کی طرح اس حدیث کو ملا کا قول کہنے کی جرأت تو نہیں فرمائی لیکن ایسی تاویل فرمائی ہے جو اوپر کی تاویلات سے بہت مشابہ ہے مثلاً ارشاد ہے کہ مولوی چراغ علی نے اس حدیث کو منقطع قرار دیا ہے۔ لیکن بیشتر اصحاب کے نزدیک یہ کوئی معقول سبب نہیں جس کی بناء پر