کتاب: محدث شمارہ 31 - صفحہ 14
ان کے لئے قطعاً مفید نہیں ہو سکتا۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حق تعالیٰ زبردستی کسی سے کچھ نہیں منواتا۔ صرف دعوت دیتا ہے، سمجھاتا ہے اگر وہ مان لیں تو بہتر، اگر نہیں تو نہ سہی۔ ۲؎ انذار (وارننگ دینا، نتائج بد سے آگاہ کرنا، متنبہ کرنا)اس کے معنی دھمکی دینا نہیں، بلکہ غلط نتائج سے مطلع کرنا ہیں۔ اندیشوں سے اعتراز اور پرہیز کرنے کے لئے اگر گنجائش اور وقت باقی ہو تو اس سلسلے میں تنبیہ کرنے کو ‘انداز‘ کہتے ہیں اور اگر گنجائش باقی نہ رہے تو اس کا نام ’اعلام اور اخبار‘ ہے: ان کان للزمان اتماع بحیث یسع فیه الاحتراز عن المخوف به فانذار والا اعلام واخبار لا انذار (كشف المحجوبَين علي تفسير الجلالين ص ۱۰) ﴿خَتَمَ۱؎ اللّٰہُ عَلٰي قُلُوْبِھِمْ وَعَلٰي سَمْعِھِمْ وَعَلٰٓي اَبْصَارِھِمْ غِشَاوَةٌ وَّلَھُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ ﴾ ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہے اور (آخرت میں)ان کو بڑا عذاب (ہونا)ہے۔ _________________________________ ۱؎ خَتَمَ (مہر لا دی)مہر ہمیشہ خط، آرڈر اور مضمون کے اختتام اور تکمیل پر ان کے آخر میں لگائی جاتی ہے پہلے نہیں گویا کہ مضمون اور خط کی تکمیل ہی مہر ثبت کرنے کا باعث اور نتیجہ ہوتی ہے، مہر خط اور آرڈر یا مضمون کا باعث نہیں ہوتی۔ یہاں پر ’مضمون‘ آیت ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَوَاءٌ عَلَیْھِمْ﴾ الایۃ میں مذکور ہو گیا ہے یعنی ’میں نہ مانوں‘۔ مہر لانے سے مراد یہ ہے کہ غلط کام پر انسان کے دل میں جو خلش کبھی کبھار چٹکیاں لیتی رہتی ہے، وہ اب جاتی رہتی ہے۔ ضمیر مردہ ہو جاتا ہے، اس کی طرف سے پھر کبھی صدا بلند نہیں ہوتی اور نہ احتجاج ہوتا ہے۔ اب ان کو ضمیر کی طرف سے کسی فطری مزاحمت اور ملامت کا کھٹکا بھی باقی نہیں رہتا۔ بلکہ اپنی کج روی، بد عملی اور کفر بازی کو بنظر استحسان دیکھنے لگ جاتے ہیں۔ ﴿وَھُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا﴾ (کہف ع ۱۲) وہ سمجھتے ہیں کہ وہ خوب کام کر رہے ہیں۔ اور اس پر وہ پوری طرح مطمئن ہو رہتے ہیں: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا وَرَضُوْا بِالْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَاطْمَاَنُّوْا بِھَا﴾ (يونس ع ۶) جن لوگوں کو ہم سے ملنے کا کھٹکا ہی نہیں اور دنیا کی زندگی سے خوش اور اس پر وہ مطمئن ہیں