کتاب: محدث شمارہ 31 - صفحہ 13
ثم التاویل تاویلان، تاویل لا یخالف قاطعا من الکتاب والسنة واتفاق الامة وتاويل يصادم واثبت بقاطع فذلك الزندقة.... سواء قال لا اثق بھؤلاء الرواة او قال اثق بھم لكن الحديث موؤل ثم ذكر تاويلا فاسد الم يسمع من قبله فھو الزنديق مندرجہ بالا آیت میں کَفَرُوْا سے مراد وہ لوگ ہیں جو بوجوہ ’میں نہ مانوں‘ کے اصول پر قائم ہیں اس لئے علماء نے لکھا ہے کہ ﴿سَوَاءٌ عَلَیْھِمْ، کَفَرُوْا﴾ کا بدل ہے۔ اس وقت اس کا مطلب یہ ہو گا کہ جن لوگوں کا شیوہ ’میں نہ مانوں‘ ہے یعنی وہ جن کو ڈرانا نہ ڈرانا یکساں ہے، وہ کلمہ نہیں پڑھیں گے۔ ظاہر ہے ایسے لوگوں کو راہ پر لانے کے لئے جتنی اور جیسی کچھ بھی کوششیں کی جائیں گی، رائیگاں ہی جائیں گی مگر بایں ہمہ ہمیں اتمام حجت، تبلیغ کے حصولِ ثواب اور اپنے فرض منصبی سے سبکدوش ہونے کے لئے تبلیغ اور دعوت کا سلسلہ جاری رکھنے کا حکم ہے ویسے بھی یہ امور علم الٰہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ کون اس سٹیج پر ہے اور کون ابھی اس سے ورے ہے، اللہ ہی بہتر جانتا ہے، اس لئے ایک داعیٔ حق کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی ڈیوٹی بہرحال انجام دے۔ صالح عنصر تو بچ جائے گا۔ اور جو بےکار اور ردی ہو گا، وہ خود بخود اپنے انجام سے ہم کنار ہو کر رہے گا۔ باقی رہی یہ بات کہ پھر اس انکشاف کا فائدہ؟ سو وہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کو اس ذہنی کوفت سے نجات دلانے کے لئے ہے جو ان بد نصیبوں کو دیکھ دیکھ کر آپ کو ہوتی رہتی تھی۔ اس کیفیت کے ازالہ کے لئے دوسرے مقام پر یوں فرمایا: ﴿فَاِنَّمَا عَلَیکَ الْبَلَاغُ وَعَلَیْنَا الْحِسَابُ﴾ (رعد.ع۶) ﴿َلَا تَذْھَبْ نَفْسُکَ عَلَیْھِمْ حَسَرٰتٍ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ بِمَا یَصْنَعُوْنَ﴾ (فاطر ع ۲) ’’میں نہ مانوں‘‘ کے ان بیماروں کا دوسری جگہ یوں ذکر فرمایا ہے کہ: ﴿وَلَئِنْ اَتَيْتَ الَّذِيْنَ اُوْتُوْا الْكِتٰبَ بِكُلِّ اٰيَةٍ مَّا تَبِعُوْا قِبْلَتَكَ﴾ (پ۲.البقره.ع۱۷) جن لوگوں كو كتاب دی گئی ہے اگر آپ سارے دلائل بھی ان کے پاس لے آئیں، تب بھی وہ آپ کے قبلہ کی پیروی نہ کریں۔ ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ حَقَّتْ عَلَيْھِمْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ. وَلَوْ جَآءَتْھُمْ كُلُّ اٰيَةٍ حَتّٰي يَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِيْمَ﴾ (پ۱۱. يونس ع۱۰) اور (اے پیغمبر!)جو لوگ آپ کے رب کے حکم (عذاب)کے مستوجب ٹھہر چکے ہیں، وہ تو جب تک عذاب درد ناک کو دیکھ نہ لیں گے کسی طرح ایمان لانے والے ہیں نہیں اگرچہ (دنیا جہاں کے)تمام معجزے ان کے سامنے (کیوں نہ)آموجود ہوں۔ الغرض جو لوگ یہ تہیہ کر لیتے ہیں کہ کچھ بھی ہو وہ بہرحال اپنے سابقہ موقف پر ڈٹے رہیں گے۔ ان کو تبلیغ کرنا