کتاب: محدث شمارہ 31 - صفحہ 12
تیسرے سرے پر واقع ہے۔ مضمون کی ترتیب یہ ہے کہ: اسلام کو ایک نظام کی حیثیت سے قبول کرنے والے وہ لوگ جو جزوی طور پر بعض احکام پر قناعت نہیں کرتے، وہ ’’ربانی راہ یعنی سیدھے راستے‘‘ پر پڑ جاتے ہیں، اگر وہ اس پر گامزن رہے تو مرادیں پا لیں گے، بگڑی بن جائے گی اور اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے۔ بالفاظ دیگر: اس سلسلۂ مضمون کی ترتیب ٹوٹ گئی تو پھر متوقع ثمرات اور نتائج کے حتمی، اصولی اور قدرتی نتیجہ والی بات نہ رہے گی۔ بخت و اتفاق اور فضل و رحمت کی بات اور ہے۔ ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَیْھِمْ ءَاَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ ﴾ (اے پیغمبر!)جن لوگوں نے (قبولِ اسلام سے)انکار کیا ان کے حق میں یکساں ہے کہ تم ان کو (عذابِ الٰہی ﴿ تُنْذِرْھُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ.﴾ سے)ڈراؤ یا نہ ڈراؤ، وہ ایمان لانے والے نہیں۔ ______________________________________ ۱؎ کُفْر (میں نہ مانوں)کَفَرُوْا (میں نہ مانوں کے رسیا)کفر اصل میں چھپانے کو کہتے ہیں۔ جو شخص ازراہِ جہل، بنا برعناد، بر سبیل حجود یا نفاق بنیادی حقائق دینیہ کا انکار کرتا ہے یا دوسرے شرعی احکام کی تکذیب کرتا ہے تو اسلامی اصطلاح میں اس کو کافر کہتے ہیں (خازن)اور اس کے اس طرزِ گریز، اسلوبِ انکار اور عملِ فرار کا نام کفر ہے۔ اسی طرح جو لوگ منصوص حقائقِ شرعیہ میں رد و بدل کرتے ہوئے ایسی ’تاویل‘ کا سہارا لیتے ہیں جس کی زبان اور مضمون کے لحاظ سے کوئی گنجائش نہیں ہوتی یا وہ اپنی سفلی خواہشات اور سیاسی مصالح کی بنا پر ’تلعب بالدین‘ (دین سے کھیلتے اور شغل)کرتے ہیں، تو وہ بھی کفر کا ارتکاب کرتے ہیں: حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ان المخالف قد یخالف نصامتوا ترا ویزعم انه مؤول ولکن تاویله لا انقد اح له اصلا في اللسان لاعلي قرب ولا علي بعد ذلك كفرو صاحبه مكذب وان كان يزعم انه موؤل (التفرقة بين الاسلام والزندقة) یعنی مخالف کسی متواتر نص کی مخالفت کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ مؤول ہے مگر اس کی اویل کے لئے قریب یا بعید زبان میں کوئی گنجائش نہیں ہوتی تو یہ کفر ہے اور اس کا مرتکب مکذب (تکذیب کرنے ولا)ہے، اگرچہ وہ اس زعم میں رہے کہ وہ ’مؤول‘ ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: ’’تاویل کی دو قسمیں ہیں ایک تو وہ ہوتی ہے جو کتاب و سنت اور اجماع کے مخالف نہیں ہوتی، دوسری وہ ہوتی ہے جو ان سے متصادم ہوتی ہے۔ ایسا مؤوّل زندیق ہوتا ہے خواہ وہ یوں کیوں نہ کہے کہ اس حدیث کے راوی کے بارے میں مجھے اطمینان نہیں یا اس کے معنے دوسرے ہیں۔‘‘