کتاب: محدث شمارہ 31 - صفحہ 11
﴿اُوْلٰٓئِکَ عَلٰی ھُدًی مِّنْ رَّبِّھِمْ۱؎ وَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۲؎ یہی لوگ اپنے پروردگار کے سیدھے راستے پر ہیں اور یہی (آخرت میں من مانی)مرادیں پائیں گے۔ __________________________________ ۱؎ مِںْ رَبِّھِمْ (اپنے رب کی طرف سے)ہدایت اور سیدھی راہ سے مراد، ربانی راہ اور ہدایت ہے، جو اب صرف قرآن و حدیث میں محصور ہے۔ ’مِنْ رَّبِّھِمْ‘ کی قید اس لئے لگائی گئی ہے کہ انسان کی اپنی مرتب کردہ رہنمائی اپنے لئے یا غیر کے لئے حیوانی خواہشات اور بہیمی میلانات کے اتباع کی ایک شکل ہے اصولی نہیں ہے۔ اس سے مختلف پگڈنڈیوں پر پڑ کر ابن آدم کی جمعیت اور شیرازہ بکھر تو سکتا ہے مجتمع نہیں ہو سکتا، کیونکہ انسان کے حیوانی میلانات جداجدا ہوتے ہیں۔ اس لئے سب کا رخ بھی جدا جدا ہو سکتا ہے۔ الغرض انسانی اور ملکی نظام کے استحکام اور وحدت کو برقرار رکھنے کے لئے بھی ’’ربانی رہنمائی‘‘ ایک فطری ضرورت ہے جس کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ اولاد آدم اپنے مختلف اور خود ساختہ معیاروں کی بنا پر چھوٹی چھوٹی اور حقیر سی ٹکریوں میں بٹی جا رہی ہے اور بٹ کا ائتلاف اور باہمی ربط و ضبط کے امکانات کو سخت نقصان پہنچا رہی ہے۔ اس کے علاوہ خدا جس طرح سب کا خدا ہے اسی طرح ساری مخلوق بھی اسی کی مخلوق ہے اس لئے اپنے بندوں کے لئے یکساں اور قابل قبول نظام حیات بھی وہی دے سکتا ہے دوسرا نہیں۔ کیونکہ بندوں کے ملکی اور نسلی احوال و ظروف کے اس قدرتی اختلاف اور نزاکتوں کو جس طرح وہ رب سمجھ سکتا ہے دوسرا نہیں سمجھ سکتا اور ان غیر مصنوعی اختلافات کو باقی رکھ کر ان کو ایسی اصولی لڑی میں پرو کر ایک ایسے ’کلمۂ جامعہ‘ کے گرد جمع کر دینا جو ملکی وحدت، طرزِ حیات کی پاکیزگی، فوز و فلاح اور خدا جوئی جیسی توفیق مہیا کر سکے خدائی پیمانے کا یہ کام صرف خدا ہی کر سکتا ہے۔ بس مِنْ رَبِّھِمْ کی قید اس پس منظر کے سلسلے کی ایک لطیف تلمیح ہے۔ یہاں پر متقیوں کی جن پانچ صفاتِ حسنہ اور خصائص کا ذِکر کیا گیا ہے، ربّانی راہ کا حصول اور اس پر گامزن رہنے کی توفیق، ان کا فطری اور قدرتی نتیجہ ہے۔ ان پانچ صفات کے نتیجے کے طور پر سیدھے راستے کی بشارت دینے سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اسلام ایک نظامِ حیات ہے اور اس کے احکام اس سلسلے کی غیر منفک سنہری کڑیاں ہیں مگر ان کے خاطر خواہ اور موعود نتائج اور ثمرات کا ظہور اس کے جزوی احکام پر موقوف نہیں ہے بلکہ وہ اس امر پر منحصر ہے کہ اسلام کو ایک نظام کی حیثیت سے پورا پورا قبول اور نافذ کیا جائے۔ جزوی شکل میں توڑ پھوڑ کر اس کو اپنانے کی کوشش نہ کی جائے اس لئے دوسرے مقام پر فرمایا، ﴿اُدْخُلُوْا فِیْ السِّلْمِ کَآفّةً﴾ (اسلام میں سارے داخل ہو جائیے۔ ورنہ بات نہیں بنے گی۔ اگر ہم یہ کہیں کہ عالم اسلام کی محرومی کا باعث اسلام سے اس کی جزوی بستگی ہے تو بےجا نہ ہو گا۔ ۱؎ اَلْمُفْلِحُوْنَ (مرادیں پانے والے)فَلَح کے معنے زمین جو تنااور فَلِح کے نیچے کا ہونٹ پھٹا ہوا ہونا اور اَفْلَحَ کے معنے درست ہونا ہے۔....... یعنی بگڑی بنا لینے والے۔ یہ سلسلۂ مضمون کی تیسری کڑی ہے جو آخر میں