کتاب: محدث شمارہ 31 - صفحہ 10
دوزخ کے فرزندوں کی تقسیم، لازوال غم و اندوہ اور چیخ و پکار اور غیر فانی بہار و مسرت، حیات سرمدی اور عیشِ دوام کے کامل ظہور کا وقت، یہ سب امور، آخرت اور اس سے متعلقات کے تحت آجاتے تھے۔
قیامت بردوش آخرت کا یہ تصور، انسان کو تازہ دم اور محتاط رکھنے اور محتاط جینے کے لئے کافی موثر ہے۔ اس دن کی جواب دہی کے احساس کی یہ کڑک فلت کی بے ہوشی کے لئے زبردست تازیانہ ہے۔ اگر آخرت کی جواب دہی کا یہ احساس معدوم ہو جائے یا اس کا رنگ پھیکا پڑ جائے تو انسان جلد یا بدیر بے راہ ہو جائے بلکہ ہو جاتا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ زندگی اور فکر و عمل کا یہ قافلہ کسی خاص مقصد کے تحت ایک خاص منزل کی طرف رواں واں ہے جس کا بہرحال کوئی ٹھوس انجام ضرور ظاہر ہو کر رہے گا۔ جنہوں نے اس کا احساس نہیں کیا، اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی کی صدائیں بلند کیں، بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست جیسے بول بولے اور غفلت و بے ہوشی جیسی غارتِ گر آخرت کے ہاتھوں تباہ ہوئے اور عملاً انہوں نے اس امر کا اعلان کیا کہ خدا کوئی نہیں، اگر ہے تو دوبارہ زندہ کرنے اور بے خطا امت پر قادر نہیں (العیاذ باللّٰہ )
آخرت، توحید کے اتمام اور کامل ظہور کی ایک ایسی گھڑی ہے، جس میں رب کے سوا اور سب کی آسیں ٹوٹ جائیں گی۔ سب سہارے غائب ہو جائیں گے، لا الٰہ الا اللہ کے مضمون کا انسان اپنی انہی آنکھوں سے مشاہدہ کرے گا، انبیاءِ کرام علیہم السلام کی جس دعوت کو ایک مجذوب کی بڑ اور خیال خام تصور کیا کرتا تھا۔ اب ان سب حقائق کو مشہود و موجود پائے گا اور داعیان حق کی تکذیب و تصدیق کے سب نتائج اپنے سامنے محسوس کرے گا۔ حق اور باطل کی آویزش میں حق کیونکر بھاری ہوتا ہے، اس دن سب کو اس کا علم ہو جائے گا۔ یہ وہ عظیم حقائق ہیں جن کی بنا پر ’آخرت‘ نے تصور کو جزو ایمان قرار دیا گیا ہے جو دراصل اپنی ذات کو متوازن رکھنے اور کنٹرول کرنے کے لئے رب کی طرف سے انسان کے لئے ایک ’عظیم توفیق‘ مہیا کی گئی ہے جو لوگ اس توفیق سے محروم ہو جاتے ہیں وہ دراصل بہت بڑی سعادت اور عظیم سہارے سے محروم ہو جاتے ہیں۔
دوِ حاضر کے متنبیوں اور عہدۂ نبوت کے وکانداروں نے ’’بالاٰخرۃ‘‘ سے مراد حضور کے بعد آنے والی وحی اور نبوت مراد لی ہے حالانکہ یہ قرآن کی خاص اصطلاح ہے۔ قولی قرینہ کے بغیر جہاں بھی یہ لفظ آتا ہے قیامت ہی مراد لی جاتی ہے۔ بہرحال یہ ان کی تحریف ہے۔ تفسیر نہیں ہے۔
۲؎ یُوْقِنُوْنَ (یقین رکھتے ہیں)جو تصور آخرت، انسان کی دارین کے فوز و فلاح کا ضامن ہو سکتا ہے وہ صرف اور صرف وہی تصور ہے جو ’یقین اور اذعان‘‘ کی بنیاد پر قائم ہے۔ ’’خوفِ خدا، خوف آخرت، خوف انجام اور بے کلی‘‘ کا دامن گیر رہے، اس کی موٹی نشانی ہے، آخرت کے بارے میں جو عام احساس اور تصور پایا جاتا ہے، وہ ایک سطحی اعتراف کی شکل ہے اس کی جڑیں نہیں ہیں اس لئے ہماری زندگیاں اس آب و تاب سے خالی ہیں جو اسلامی تصور آخرت کا قدرتی نتیجہ ہو سکتی ہے۔