کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 98
أملك شباب قريش لنفسه عن الدنيا عبدالله بن عمر“ (سیراعلام النبلا 3/211) ”قریش کے نوجوانوں میں دنیا طلبی کے سلسلے میں اپنے نفس پر سب سے زیادہ قابو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو تھا۔“ ان کی ہمشیرہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حبالہ عقد میں تھیں ، اس لئے اُنہیں صحبت نبوی کا فیض بکثرت حاصل تھا۔ اسلام بھی جلد قبول کرلیا، علم کا شغف بھی تھا، اس لئے کثیر الروایة صحابہ میں شمار ہوتے ہیں ۔ ان کی مرویات کی تعداد دو ہزار چھ سو تیس (2630)ہے۔ ان کے پاس ایک مکتوب مجموعہ حدیث بھی موجود تھا جس کی اکثر مراجعت کرتے رہتے تھے۔ 3. انس بن مالک رضی اللہ عنہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادمِ خاص تھے۔ ان کی والدہٴ محترمہ اُمّ سلیم بنت ملحان نے اپنے اس خوش بخت لخت ِ جگر کو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے لئے ان کے حضور پیش کردیا تھا۔ جسے آپ نے قبول فرما لیا تھا۔ اس طرح اُنہوں نے خاندان ِ نبوی ہی میں پرورش پائی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اُنہیں نہایت عزیز رکھتے تھے۔ اُسوہٴ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جو مشاہدہ ان کے حصے میں آیا، وہ شاید ہی کسی کو نصیب ہوا ہو۔ بڑے ہی نیک دل زاہد و عابد تھے۔ نماز کا بڑا اہتمام فرماتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ما رأيت أحدا أشبه صلاة برسول الله من ابن أم سليم ”میں نے اُمّ سلیم کے بیٹے سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے مشابہ نماز پڑھنے والا کوئی نہیں دیکھا۔“ (سنن ابن ماجہ:827،مجمع الزوائد:2/135) ان کی مرویات کی تعداد دو ہزار دو سو چھیاسی (2286)ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست روایت کرنے کے علاوہ اُنہوں نے حضرات ابوبکر رضی اللہ عنہ ، عمر رضی اللہ عنہ ، ابن مسعود رضی اللہ عنہ ، فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا ، عبداللہ رضی اللہ عنہ بن رواحہ اور عبدالرحمن رضی اللہ عنہ بن عوف سے احادیث روایت کی ہیں ۔ ان کے پاس احادیث پر مشتمل ایک مکتوب صحیفہ تھا۔ وہ فرماتے تھے کہ یہ احادیث میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر لکھی ہیں اور انہیں حضور کے سامنے پیش بھی کیا ہے۔(تاریخ بغداد: 8/259) 4. اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیق ِخاص ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ترین اہلیہ