کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 97
أسئلك علما لا ينسى“ ایک اور دعا مانگتا ہوں کہ اے اللہ میں ایسے علم کا سوال کرتا ہوں کہ وہ بھولے نہ۔ امام الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آمین! زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم نے عرض کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم بھی یہ دعا مانگتے ہیں کہ اے اللہ ہمیں بھی ایسا علم حاصل ہو جونہ بھولے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قد سبقكم بها الغلام الدوسي ایک دوسی نوجوان سبقت لے گیا ہے، اس نے مانگ لیا اورتم رہ گئے۔( السنن الکبریٰ :5839) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس احادیث ِنبویہ کا ایک بڑا مجموعہ لکھا ہوا بھی موجود تھا، جس میں سے اُنہوں نے ہمام بن منبہ یمنی کے لئے انتخاب کرکے ایک مختصر مجموعہ بھی لکھوایا تھا جو صحیحین میں مروی ہے۔ یہ مجموعہ اس سے پہلے مسند احمد بن حنبل اور مصنف عبدالرزاق میں ذکر ہوچکا ہے اور گذشتہ سالوں میں اس کا اصل نسخہ بھی تحقیق کے ساتھ شائع ہوچکا ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی دیانت،امانت اور ثقاہت، نیکی و تدین اور زہد و تقویٰ، پھر شوقِ حصولِ علم اور صحبت ِنبوی کا اہتمام اور حفظ و کتابت ِحدیث اور درس و تدریس سے خصوصی شغف اور ان کے مجموعے کا بعینہ مل جانا یہ اس امر کے قطعی دلائل ہیں کہ ان کی مرویات محفوظ اور شک و شبہ سے بالا ہیں اور نہایت قابل اعتماد ہیں ۔ ﴿فبأي حديث بعده يؤمنون﴾ 2. حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ آپ امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بیٹے تھے۔ بچپن میں ہی ایمان لے آئے تھے۔ گیارہ برس کی عمر میں اپنے والد ِگرامی کے ساتھ ہجرت کی۔ متعدد جہادی مہمات میں شرکت کی۔ اتباعِ سنت نبویہ میں آپ رضی اللہ عنہ ضرب المثل ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت تھی۔ آپ کا ذکر ہوتا تو آنسوؤں پر قابو نہ رہتا۔ اکثر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر رہتے۔ غائب ہوتے تو دوسروں سے پوچھتے کہ آپ نے کیا فرمایا تھا۔ تذكرة الحفاظ میں ہے: كان ابن عمر حبر هذه الأمة“ (1/38) ”ابن عمر رضی اللہ عنہ اس اُمت کے بڑے عالم تھے۔“ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست بھی روایات حاصل کیں اور حضرات ابوبکر،عثمان، ابوذرّ غفاری، معاذ اور ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بھی احادیث حاصل کیں ۔ صحابہ و تابعین میں ان کے تلامذہ کی بڑی تعداد پائی جاتی ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :