کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 95
سے زیادہ تعداد حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرویات کی ہے جو پانچ ہزار تین سوچوہتر(5374) ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا، ان احادیث کو ان کی بہ حالت ِاسلام زندگی پر تقسیم کریں تو روزانہ کی اوسط پانچ یا چہ احادیث بنتی ہیں جو قطعاً قابل تعجب نہیں ہیں ، یعنی احادیث کی مجموعی تعداد بھی ایسی نہیں کہ اس پرتعجب ہو اور اصحابِ رسول کی انفرادی مرویات کی تعداد بھی غیر معقول نہیں ۔ اس کے بعد وضع حدیث کے الزام کی کیا حقیقت رہ جاتی ہے!! پھر ان کثیر الروایہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرو سوانح اور شخصی اوصاف اور ذاتی محاسن پر نظر ڈالیں تو صحت و صداقت ِحدیث پر دل مزید اطمینان محسوس کرتا ہے۔ والحمد اللہ على ذلك انتہائی اختصار سے چند معروضات پیش خدمت ہیں ، اس امید کے ساتھ کہ آپ صدقِ دل سے ان کی شخصیات کی خدمات کا مطالعہ کریں گے۔ ان شاء اللہ 1. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سات ہجری، غزوہٴ خیبر کے سال اسلام لائے۔ بڑے صالح و متقی، عابد و زاہد، شب زندہ دار اور روزے کا اہتمام کرنے والے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بڑی محبت کرتے تھے۔ ہمہ وقت صحبت ِنبوی میں رہتے تھے۔ سفر و حضر میں آپ کے ساتھ ہوتے۔ اصحابِ صفہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تلامیذ ِخاص تھے، ابوہریرہ ان میں سربرآوردہ تھے۔ علم کا شوق فراواں تھا، مال و متاعِ دنیا سے مکمل طور پر مستغنی تھے۔ اللہ پاک نے قناعت کی دولت سے نوازا ہوا تھا۔ صحبت ِنبوی کا پورا عرصہ (چار برس) ایک لمحہ بھی حصولِ علم سے غفلت نہیں برتی، پوری کوشش کرتے کہ کوئی حدیث سننے سے رہ نہ جائے۔ ٭ صحیح بخاری و مسلم میں ان سے مروی ہے : قلت يارسول الله! أسمع منك أشياء فلا أحفظها قال:(أبسط رداء ك) فبسطتُّه فحدَّثَ حديثًا كثيرا فما نسيتُ شيئا حدثني به“(ترمذی:3835) ”میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں آپ سے کئی باتیں سنتا ہوں مگر یاد نہیں رکھ پاتا، آپ نے فرمایا: اپنی چادر پھیلاؤ تو میں نے چادر پھیلا دی۔ پھر آپ نے مجھے بہت ساری احادیث بیان فرمائیں ، آپ نے جو بیان فرمایا، پھر مجھے اس میں سے کچھ نہیں بھولا۔“ ٭ ایک دن ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! روزِ قیامت آپ کی شفاعت