کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 94
کثیر الروایہ اصحابِ رسول رضی اللہ عنہم اور ان کے شخصی محاسن
اصحابِ رسول رضی اللہ عنہم کی مجموعی تعداد ایک لاکہ کے قریب ہے اور سب کے سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے سرشار اور آپ کے جاں نثار تھے۔ دین پر عمل اور ا س کی نشرواشاعت کے لئے سب کی خدمات انتہائی قابل قدر اور مساعی جمیلہ لائق تحسین ہیں ۔ اگر ان کو خدمت ِاسلام کے مختلف شعبوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو ان میں تخصصات کے رجحانات معلوم ہوتے ہیں اور ان کی طبائع کے مطابق تقسیم کار ہی اسلام کی کامیاب نشرواشاعت کا بڑا سبب نظر آتا ہے۔
جیسے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو قرآنِ کریم سے خصوصی شغف تھا یا ان کے مزاج و طبیعت اور استعداد کے پیش نظر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں کاتب ِوحی کے طور پر قرآنِ کریم کی کتابت کے لئے منتخب فرمایا تھا، بالکل ویسے ہی توفیق ِباری سے ایک خاص جماعت ِصحابہ کو حفظ وکتابت کا خصوصی اعزاز حاصل ہوا اور كل ميسر لما خلق لہ کے مطابق اُنہیں اللہ نے اس کی خصوصی صلاحیت سے نوازا تھا اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی دعائیں اور تربیت بھی ان کو میسر تھی اور ان کی تعلیم بھی اسی انداز سے ہوئی تھی۔ ان کی ثقاہت، سنت ِنبویہ سے خصوصی لگاؤ، اُسوہٴ نبوی کا تتبع ان کی اس عمل مبارک کے لئے موزونیت کا واضح ثبوت ہے۔ ان میں سرفہرست خلفاے راشدین کے علاوہ
1. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (م57ھ) 2. حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ (م75ھ)
3. حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ (م93ھ) 4. حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا (م49ھ)
5. حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ (م68ھ) 6. جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ (م74ھ)
7. حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ (م46ھ) 8.حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (م32ھ)
9. حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ (م65ھ) ہیں ۔
صرف ان نو حضرات صحابہ کی روایات کی مجموعی تعداد اٹھارہ ہزار چار سو اڑسٹھ (18468) ہے۔ یہ احادیث کی مجموعی تعداد کے ایک ثلث سے بھی زیادحصہ ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حفاظت ِحدیث کا عہد ِنبوی میں کس قدر اہتمام تھا۔ اس کے لئے یہ کہنا کہ تیسری صدی میں احادیث وضع کی گئی ہیں ،محض احمقانہ اور جاہلانہ الزام ہے۔ ان میں سے بھی سب