کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 93
ہے کہ جس نے میری طرف کوئی بات منسوب کی، جو میں نے نہیں کہی تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں تلاش کرے۔“ یعنی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو حفظ و روایت سے بھی بڑھ کر حفاظت ِحدیث کی فکر دامن گیر تھی جس کے لئے آپ انتہائی محتاط تھے۔ خبر واحد کی بنیاد پر اپنی رائے اور اجتہاد کو ترک کرنے کی صریح روایات بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے منقول ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُنہیں حدیث نبوی پر مکمل اعتماد تھا اور وہ اس سلسلے میں کسی قسم کے تردّد کا شکار نہ تھے۔ شہادتِ عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد بالخصوص جب مسلمانوں میں فتنوں نے سر اُٹھایا اور دوسری طرف اسلام کا دائرہ وسیع ہوگیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خلفاے ثلاثہ کی نسبت روایت ِحدیث میں مزید احتیاط کرنا شروع کردی اور وہ خاصی تحقیق کے بعد حدیث قبول کرتے تھے۔ لیکن یہ طرزِ عمل ان کا اپنے عہد خلافت میں تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ عموماً یہ حدیث برسرمنبر بیان کیا کرتے تھے : قال رسول الله لا تكذبوا علي فإنه من كذب على فليلج النار (بخاری:103) ”مجھ پر جھوٹ نہ باندھا کرو جس نے میرے نام سے جھوٹ بولا وہ جہنم میں جائے گا۔“ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ بھی منقول ہے: فلأن أخرّ من السماء أحب إلي من أن أكذب عليه (ایضاً: 3342) ”رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بات منسوب کرنے کی نسبت مجھے آسمان سے گرنا گوارا ہے۔“ جب ان کے سامنے کوئی حدیث بیان کرتا تو ا س کی صحت کے لئے اس سے قسم لیتے تھے اور خود بھی روایت کرتے تو إي وربّ الكعبةکہہ کر بیان کرتے۔ (ابوداؤد:4763) حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس احکامِ نبویہ کا ایک مجموعہ بھی تھا جس کی وہ دل و جان سے زیادہ حفاظت فرماتے تھے۔ حتیٰ کہ لوگوں کو غلط فہمی ہونے لگی کہ شاید اس میں کوئی خاص باتیں ہیں ۔ اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ مجموعہ لوگوں کو دکھایا تھا۔ حدیث ِرسول سے استغنا ہوتا تو وہ اس کی اتنی حفاظت کیوں کرتے اور روایت میں اس حد تک احتیاطکیوں فرماتے؟