کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 89
ہیں تو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جیسا انسان جس کو حدیث پڑھنے پڑھانے کے لئے اپنے آپ کو وقف کررکھا تھا، اس نے اگر روزانہ پانچ چہ احادیث حفظ کرلیں تو اس میں اعتراض والی کونسی بات ہے ؟ جب کہ ان کو اس کے سواکوئی کام نہیں تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہتے اور ان کی نیت صرف یہ ہوتی کہ رسول اللہ کی کوئی بات سننے سے رہ نہ جائے۔ عدالت ِصحابہ رضی اللہ عنہم امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : من صحب النبي صلی اللہ علیہ وسلم أو رآه من المسلمين فهو من أصحاب (صحیح بخاری: کتاب فضائل اصحاب النبی ) ”مسلمانوں میں جس شخص کو نبی کو صحبت نصیب ہوئی یا اس نے آپ کو دیکھا، وہ آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ہے۔“ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک معقول شرط کا اضافہ فرمایا ہے کہ ”اس کا خاتمہ بھی اسلام پر ہوا ہو۔“ (الاصابہ:1/7) الصحابة كلهم عدول“ یہ مقولہ اُمت کے ہاں متفق علیہ ہے۔ یعنی تمام صحابہ کرام عادل ہیں ، وہ کفر و فسق و فجور سے متنفر تھے، سب ہی متقی و محسن تھے، حق و انصاف پر قائم تھے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے ان کا تزکیہ فرمایا، صفائی بیان کی، قرآن کریم میں ان کے اوصافِ حمیدہ بیان ہوئے اور ان کی دیانت و امانت کی شہادت ثبت ہوئی۔ اس بنا پر تمام اہل اسلام متفق ہیں کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عادل وثقہ٭ ہیں ۔ صحابیت کے ثبوت کے لئے بھی علماے کرام نے بہترین معیار قائم کیا اور حدیث ِنبوی کی روشنی میں عہد صحابہ کی انتہا بھی متعین ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : (ما من نفس منفوسة اليوم تأتي عليها مائة سنة وهي حية يومئذ) (صحیح مسلم : 2538) ”کوئی ذی روح انسان ایسا نہیں جو آج زندہ ہے اور سوسال گزرنے کے بعدبھی زندہ ہو۔“ اس حدیث کی روشنی میں علما نے یہ زمانہ 110 ہجری تک متعین کیا ہے۔ اس کے بعد کوئی شخص صحابی ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا تھا۔ علماے کرام نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارہ طبقات بیان _____________ ٭ مزید تفصیل : الصحابۃ کلہم عدول از پروفیسر طیب شاہین لودھی (محدث: ۲۶/۶ ، مارچ ۱۹۹۵ء)