کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 87
ہندوں نے بابری مسجد کے عین نیچے مندر کے وجود کا دعویٰ کیا تھا اور اب ہندوستان کی انتہاپسند تنظیموں نے مزید سینکڑوں ایسی مساجد کے انہدام کا دعویٰ بھی کرڈالا ہے کہ وہ سب مندروں پر تعمیر کی گئی ہیں ۔ اس نوعیت کے دعووں کے ذریعے دراصل کسی قوم میں مذہبی اشتعال اور احساسِ محرومی پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے تاکہ وہ پوری جذباتی وابستگی اور پھرپور قوت کے ساتھ اپنے مرکز عبادت کو دوبارہ قائم کرنے کے لئے مجتمع ہوجائے۔ اگر یہود مسجد اقصیٰ کے احاطے سے باہر کوئی بھی ہیکل تعمیر کرناچاہتے ہیں تواس میں مسلمانوں کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے؟ البتہ جہاں تک مسجد اقصیٰ کے احاطے کی بات ہے تو اس میں موجود مسجد اقصیٰ شرعی طورپر اور دیگر آثار تاریخی طورپر مسلمانوں کی ہی ملکیت ہیں ۔ عالمی اداروں نے بھی انہیں مسلمانوں کاحق ہی قرار دے رکھاہے، ا س لحاظ سے یہود کو انہیں نقصان پہنچانے کا اخلاقاً وقانوناًکوئی حق نہیں ۔
ان حالات میں جہاں اُمت ِمسلمہ کے ہر فرد کا فرض ہے کہ وہ اپنے مقاماتِ مقدسہ کاشعور رکھے، ان پر ہونے والی جارحیتوں سے آگاہ ہو تاکہ وہ امہ کا ایک فرد ہونے کے ناطے اپنے اوپر عائد شرعی ذمہ داری سے عہدہ برا ہوسکے اور اس فرض کی ادائیگی میں اپنا حصہ ڈال سکے وہاں مسلم اُمہ کے قائدین کا یہ براہ راست فرض بنتاہے کہ وہ مخالف کو سنگین جارحیت سے باز رکھنے کے لئے ہرممکنہ اقدام بروئے کار لائیں ۔ ہمارا فرض محض اس قدر نہیں ہے کہ ہم حقائق کو جاننے کے بعدمطمئن ہو کر بیٹھ جائیں بلکہ ان ظالمانہ اور تلخ حقائق کو بدلنے کے لئے ہرممکنہ کوشش کرنا بھی ہم پر فرض ہے۔ مسلمانوں کا قبلہ اوّل اور بیت اللہ کے بعد تعمیر ہونے والا دوسرا مبارک ترین اللہ کا گھر صہیونیوں کی سازشوں کے نرغے میں ہے۔ سلطان ایوبی نے تو اس وقت تک چین سے نہ بیٹھنے کی قسم کھائی تھی جب تک وہ بیت المقدس کو عیسائیوں کے تسلط سے آزاد نہ کرالیں ، اُسی اُمت ِمسلمہ کے فرزندآج 40 برس گزرنے کے بعد بھی نہ صرف مطمئن وپرسکون ہیں بلکہ آہستہ آہستہ کوتاہی اور مداہنت یوں اپنا اثر دکھا رہی ہے کہ مسلمانوں میں بعض ایسے کرما فرما بھی پیدا ہوگئے ہیں جو مسجد ِاقصیٰ کواسی طرح یہود کی تولیت میں دے دینے کے داعی ہیں جیسے مسلمانوں کے پاس بیت اللہ الحرام کی تولیت ہے۔ انا للھ وانا الیھ راجعون!
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ذمہ عائد فریضے کو ادا کرنے کی قوت عطا فرمائے۔ آمین (حسن مدنی)