کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 86
ہماری نظر میں اس مسئلے کی حیثیت مذہبی سے زیادہ سیاسی ہے، بالفرض بیت المقدس کو یہودی کا مرکز ِعبادت تسلیم بھی کر لیا جائے تو ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا میں مختلف اقوام کی مرکزی عبادت گاہیں ان کے زیر انتظام نہیں ہیں ۔اس کی بڑی مثال خود پاکستان میں ننکانہ میں سکہوں کا مذہبی مرکز(دربار گورونانک صاحب) ہے۔ اگر سکہ یہاں آکر باقاعدگی سے عبادت کرتے ہیں اور مسلمانوں نے اس کی اُنہیں اجازت دی ہوئی ہے، تواس سے یہ مسئلہ قطعاً پید ا نہیں ہوتا کہ سکہ قوم کا لازماً ننکانہ شہر پر سیاسی قبضہ بھی ہونا چاہئے۔ گویا مرکز ِعبادت ہونا اور سیاسی قبضہ ہونا دو ایسی چیزیں نہیں جوباہم لازم و ملزوم ہوں ۔ جس طرح سکھ ننکانہ صاحب میں آکر اپنی رسومات ادا کرتے ہیں ، اسی طرح مسلمان مسجد ِاقصیٰ میں جاکر عبادت کرتے ہیں جو یہودیوں کے زیر انتظام ہے … گوکہ یہودیوں کا اس علاقے پر قبضہ بھی ایک مستقل سیاسی تنازعہ ہے جوعالمی تنازعوں میں سرفہرست ہے… اگر کسی قوم کا مرکز عبادت ہونا انکے سیاسی قبضہ کو بھی مستلزم ہے تو ہمیں کل کلاں سکہوں کو بھی یہ حق دینے کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ ان حالات میں صہیونیوں کا درپردہ مسجد اقصیٰ کو منہدم کرکے عین اسی مقام پر ہیکل کی تعمیر کا دعویٰ دراصل ایسا اقدام ہے جس کی عالمی قوانین اور تہذیب واخلاق کسی بھی اعتبار سے تائید نہیں کی جاسکتی۔اس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ مسلمانوں کو اس علاقے سے کلی طورپر بے دخل کیا جائے اوربیت المقدس کو مسلم ذہنیت سے اسی طرح خارج کردیا جائے جیسے اندلس پر مسلمانوں کے دورِ حکومت تاریخ کا ایک باب بن کررہ گیاہے۔صہیونیوں کا خیال ہے کہ بیت المقدس پر ان کے دائمی تسلط میں مسجد ِاقصیٰ کا وجود ایک مستقل رکاوٹ ہے جس کو ختم کئے بغیر وہ اس علاقے سے مسلمانوں کی دلچسپی کو ختم نہیں کرسکتے۔مسلمانوں کے مذہبی شعور سے بیت المقدس کو کھرچنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ یہاں سے مسجد ِاقصیٰ کو سرے سے ہی منہدم کردیا جائے۔ یہ مسجداقصیٰ کی ہی اہمیت ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان فلسطین کے دیگر شہروں تل ابیب یا بیت اللحم وغیرہ کے یہودیوں میں قبضہ میں چلے جانے سے اس طرح برافروختہ نہیں ہوتے جو سنگین صورتحال بیت المقدس کے سلسلے میں پیدا ہوتی ہے۔ مسجد اقصیٰ کے نیچے ہیکل کے آثار کا دعویٰ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ہندوستان میں انتہا پسند