کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 85
سے ملحق ہے کے ساتھ یہودی مختلف کھدائیوں کے بہانے اپنا معبد تعمیر کرنا چاہتے ہیں ۔
یہودی جارحیت کے مضمرات اور اُمت ِ مسلمہ کا فرض
پیچھے زیادہ ترمسجد اقصیٰ کے بارے میں صہیونیوں کی ریشہ دوانیوں اور عزائم کا تذکرہ کیا گیا ہے لیکن صہیونیوں کی ان کوششوں کے پس منظر میں کیا مقصد پوشیدہ ہے؟ اس سلسلے میں عرض ہے کہ مسجد اقصیٰ کی چار دیواری بہت وسیع ہے۔ اس میں بنیادی طورپر دو بڑی عمارتیں ہیں ، مغربی سمت میں مسجد ِاقصیٰ او رمشرقی سمت میں قبہ صخرہ۔یہود کی عرصہ دراز سے یہ کوشش چلی آرہی ہے کہ وہ قبہ صخرہ کو مسجداقصیٰ بنا کر مسلمانوں میں اس سے وابستگی کو ہی فروغ دیں ۔ دوسری طرف وہ احاطہ جہاں مسجد ِاقصیٰ واقع ہے اور باب المغاربہ جو مسجد ِاقصیٰ کا براہ راست واحد راستہ ہے جس کے ساتہ دیوار گریہ بھی واقع ہے، اس حصہ کے بارے میں ان کے عزائم خطرناک ہیں جیسا کہ اپریل 2005ء میں ہونے والی ملاقات میں ایریل شیرون نے واشنگٹن کو یہ منصوبہ پیش کیاہے کہ مسجد اقصیٰ کو دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے ؛ جنوب مغربی کو منہدم کردیا جائے اورمشرقی حصہ کو باقی رہنے دیا جائے۔ اس منصوبہ سے بھی پتہ چلتا ہے کہ جس عمارت کا انہدام صہیونیوں کے پیش نظر ہے وہ عین مسجد ِاقصیٰ ہے۔اسی لئے قبہ صخرہ کو مسجد اقصیٰ کے طورپر مشہور کیا جارہا ہے تاکہ اس کی موجودگی میں عام مسلمان شدید ردعمل کا شکار نہ ہوں ۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ اگریہود اس علاقے میں کوئی ہیکل تعمیر کرنا بھی چاہتے ہیں جس سے ان کے مذہبی جذبات وابستہ ہیں تواس کے لئے مسجد ِاقصیٰ کا انہدام کیوں ضروری ہے اور وہ عین اس مقام پر ہی کیوں تعمیرہوتا ہے جہاں یہ مقدس عمارت موجو دہے؟ مسجد اقصیٰ کے احاطے میں شمال مغربی حصہ اور دیگر بہت سے حصے بالکل خالی ہیں ، وہاں وہ قبہ بھی ہے جس کے بارے میں اکثر مسلم علما کا موقف یہ ہے کہ اس قبہ صخرہ کی کوئی شرعی فضیلت نہیں حتیٰ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہاں نماز پڑھنا بھی گوارا نہیں کیا تھا۔ یوں بھی یہود کے ہاں قبلہ کی حیثیت اس کو حاصل رہی ہے کیونکہ اُنہوں نے خیمہ اجتماع کو اپنا قبلہ بنایا ہوا تھا جو قبہ صخرہ کے مقام سے اُٹھالیاگیا چنانچہ قبہ صخرہ کواس کا آخری مقام ہونے کے ناطے اُنہوں نے اسے ہی اپنا قبلہ قراردے لیا۔پھرکیا وجہ ہے کہ یہود قبہ صخرہ پر کوئی تصرف کرنے کی بجائے سارا زور مسجد ِاقصیٰ پر ہی صرف کررہے ہیں ؟