کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 84
مسلمانوں نے اپنے حق کے حصول کے لئے ثورة البراق کے نام سے ایک تحریک شروع کی، یہی مسئلہ اس وقت کی اقوام متحدہ ’لیگ آف نیشنز‘ میں بھی زیر بحث آیا۔ یہودی چونکہ اپنے دعوے کا کوئی دستاویزی ثبوت مہیا نہیں کرسکے، اسلئے دسمبر 1930ء میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ یہ دیوار یہودکی بجائے مسلمانوں کی ملکیت ہے اور مسجد اقصیٰ کا حصہ ہے، یہود کا اس پر کوئی حق نہیں ۔فلسطین پر مسلط برطانوی سامراج نےفریقین کا موقف سننے کے بعدیہ فیصلہ سنایا :
وقد قررت اللجنة أن المسلمين هم المالك الوحيد للحائط وللمناطق المجاورة وإن اليهود يمكنهم الوصول إلى الحائط للأغراض الدينية
”برطانوی کمیشن نے قرار دیا کہ مسلمان ہی اس دیوار اور اس سے ملحقہ علاقوں کے اکیلے مالک ہیں ، اور یہود کویہاں صرف اپنی دینی اغراض پوری کرنے کیلئے آنے کی اجازت ہے۔ “
اُنہوں نے یہ بھی قرار دیا کہ یہود یہاں اختلاف پیدا کرنے والی عبادتیں کرنے کے مجاز نہیں اور اپنیعبادت کے لئے کسی ضروری چیز کو وہاں رکھنے کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ وہ جگہ یہود کی ملکیت میں آگئی ہے۔ جیسا کہ ہم اوپر ذکر کرچکے ہیں کہ اس دیوار کے بارے میں بھی یہودکا موقف متفقہ نہیں بلکہ صہیونی یہودیوں کے دونوں گروہوں میں اس کے حوالے سے کئی ایک اختلافات پائے جاتے ہیں ۔ حتیٰ کہ لادین صہیونی اس دیوار کو عبرانی میں ’کوٹیل‘کانام دیتے ہیں جس کا مطلب نائٹ ڈانس کلب ہے، تصور کے اسی اختلاف کا نتیجہ ہے کہ اب آخری چند سالوں میں یہ مقام اباحیت، آزاد روی اور فحاشی کا مرکز بنتا جارہا ہے۔
اس تمام حقائق کے باوجود صہیونی اس امر کو تسلیم نہیں کرتے اور اسے ہیکل سلیمانی کا بقیہ ماندہ حصہ قرار دینے کی اپنی سی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ چنانچہ اپنے زیر اثر میڈیا میں انہوں نے اس دیوارکو دیوارِ براق کی بجائے دیوارِ گریہ کے نام سے مشہور کیا۔جب اس مسئلہ کودلائل کی بنا پر تسلیم کروانا ممکن نہ رہاتو طاقت اورہٹ دہرمی کا طریقہ بروئے کار لایا گیا اور جس طرح جون 1967ء میں اسرائیلی حکومت نے ایک قرارداد کے ذریعے مشرقی اور مغربی بیت المقدس کو متحد کرکے یروشلم کانام دیا تھا، عین اسی طرح 26مئی 1998ء کو اسرائیلی پارلیمنٹ سے ایک قانون پاس کروایا جس کی رو سے دیوارِ براق کو مسلمانوں کی بجائے یہود کی ملکیت قرار دے دیا گیا۔
اب وہی دیوارِ براق جس کی لمبائی 50 میٹر اور چوڑائی 20 میٹر ہے اور جو باب المغاربہ