کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 83
أن حائط المبكى قد أصبح محل قداسة خاصة ابتداء من 1520م في أعقاب الفتح العثماني
”امرواقعہ یہ ہے کہ ایسے تمام مصادر ومراجع جن سے 16ویں صدی عیسوی سے قبل یہود کے مقام ہیکل سے کسی تعلق کا علم ہوتا ہے، ان میں حائط غربی (دیوارِ گریہ) کے بارے میں کوئی متعین اشارہ بھی نہیں ملتا۔ جیسا کہ 13ویں صدی کے یہودی محقق نحمانیدس نے 1267ء میں ہیکل کے مقام کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے اس دیوار کا تذکرہ تک نہیں کیا۔ چنانچہ 15ویں صدی عیسوی تک یہود کے وہ مراجع جن سے بیت المقدس کی تفصیلات کا علم ہوتا ہے، ان میں اس دیوار کا کوئی تذکرہ موجود نہیں ہے۔ یوں لگتا ہے کہ دیوارِ گریہ کے تقدس کی ابتدا 1520ء میں خلافت ِعثمانیہ کے قیام کے بعد ہوئی۔“
آگے لکھتے ہیں کہ دراصل اس موقع پر یہود کا ایک انتہاپسند قبیلہ بیت المقدس میں فروکش ہوا تھا جو حلولی عقائد کا حامل تھا، حلولی نظریہ عموماً بعض مقدس اشیا اور مقامات میں اپنا مظہر تلاش کرتاہے۔ عین ممکن ہے کہ مسلمانوں میں جس طرح حجر اسود اور کعبہ کو خاص تقدس حاصل ہے، ا سی کو سامنے رکھتے ہوئے اس دیوار کو بھی مصنوعی مقامِ تقدس عطا کردیا گیا ہو۔ دیوارِ براق پر یہ ایمان 19ویں صدی میں پختہ ہونا شروع ہوا اور صہیونی ذہنیت میں اس کا تقدس آہستہ آہستہ راسخ ہوا ۔ یاد رہے کہ اس دیوار کا تقدس بھی یہودیوں کے ہاں متفقہ امر نہیں ہے بلکہ آج بھی اس دیوار سے تھوڑے فاصلے پر قیام پذیر ناطوری جماعت کا سربراہ زائرین کو اس کی زیارت سے روکتا رہتا اور برملا کہتا ہے کہ یہ صہیونی حیلوں میں سے محض ایک فریب ہے ، اس سے زیاہ اس کو مقدس قرار دینے کی کوئی حیثیت نہیں ۔ اس مقالہ میں پھر ان کوششوں کا ذکر کیا گیا ہے کہ آخری دو صدیوں میں بیسیوں بار یہود نے انفرادی اور اجتماعی طورپر مسلمانوں سے اس دیوار کوخریدنے کی کوشش کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکے۔
مایوس ہوکر صہیونیوں نے دہونس اور دہاندلی سے اپنا مقصد پورا کرنے کا راستہ اپنایا اور فلسطین پر انگریز کے دورِ استعمارمیں اس دیوار پر اپنا حق جمانا شروع کیا اور مسلمانوں سے تقاضا کیا کہ وہ اس سے دستبردار ہوجائیں ۔ اپنے انگریز سرپرستوں کی حکومت میں اس اختلاف نے اتنی شدت اختیار کرلی کہ یہ مسئلہ حل کرنے کے لئے 1929ء میں برطانیہ کو باقاعدہ تحقیقاتی کمیشنShaw Commissionقائم کرنا پڑا جہاں دونوں فریقوں کے بیانات لئے گئے۔