کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 82
روکنے کا اعلان کیا اور آثارِ قدیمہ کے کام کو جاری رکھنے کا کہا تھا لیکن آخرکار کھدائی روک دینے کا اعلان بھی واپس لے لیا۔ تحریک اسلامی،فلسطین کے نائب سربراہ شیخ کمال الخطیب کا کہنا ہے کہ درپردہ کھدائی کا کام بھی تک جاری ہے، ٹریکٹروں کی بجائی چھوٹی مشینوں اور اوزاروں کے ساتھ کھدائی کی جارہی ہے، عالمی میڈیا سے اس امر کوچھپانے کے لئے وہاں موجود خیموں کے اندر سے کھودا جارہا اور مٹی کو پلاسٹک بیگوں میں ڈال کر دور پھینکا جارہا ہے۔ مسجد کی بنیادوں کو کھوکھلاکرنے کے لئے کیمیکل بھی بہایا جارہا ہے تاکہ اسکی دیواریں شدید کمزور ہو جائیں اقصیٰ فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ کہدائی کی وجہ سے جنوبی دیوار میں کئی دراڑیں پڑچکی ہیں اور اسرائیلی فوجیوں نے وہاں لوہے کی باڑ لگا دی ہے اور فلسطینی شہریوں کووہاں جانے بھی نہیں دیا جارہا۔ دیوارِبراق یہود کا دعویٰ ہے کہ یہ دیوار اس ہیکل دوم (ہیرود) کی باقی ماندہ آخری یادگار ہے جسے دوہزار برس قبل 70ء میں شاہ ٹیٹوس نے مسمار کردیا تھا۔ اس اعتبار سے یہ دیوارِ گریہ Wailing Wall ان کے نزدیک موجودہ آثار میں واحد شے ہے جو مقدس ترین حیثیت رکھتی ہے۔ جبکہ مسلمان اس دعوے کو تسلیم نہیں کرتے، اور حالات وواقعات سے بھی اس کی نفی ہی ہوتی ہے۔ صہیونیت نے یوں تو باقاعدہ ایک تحریک کے طورپر 1897ء میں جنم لیا، مگر اس تحریک کے افکار اس سے ایک دو صدی قبل یہود کے ہاں متعارف ہونا شروع ہوچکے تھے، عین انہی سالوں میں یہود نے اس دیوار سے تقدس کو منسوب کیا۔ یہی وجہ ہے کہ سولہویں صدی سے قبل یہود کے ہاں اس دیوار کی زیارت کا کوئی تصور نہیں ملتا۔’انسا ئیکلو پیڈیا یہود اور یہودیت‘ میں اس دیوار پر لکھے جانے والا مقالے میں درج ہے کہ والواقع أن كل المصادر التى تتحدث عن يهود القدس حتى القرن السادس عشر تلاحظ ارتباطهم بموقع الهيكل وحسب ولا توجد أية إشارة محددة إلى الحائط الغربي. كما أن الكاتب اليهودي نحمانيدس (القرن الثالث عشر) لم يذكر الحائط الغربي في وصفه التفصيلي لموقع الهيكل عام 1267م. ولم يأت له ذكر أيضا في المصادر اليهودية التي تتضمن وصفا للقدس حتى القرن الخامس عشر ويبدوا