کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 81
یادگار قرار دیتے ہیں ۔ دیوار کے بارے میں مزید حقائق آگے آرہے ہیں ۔
2. سابق اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین مزار کی بیٹی ایلات مزار جو خود آثارِ قدیمہ کی ماہر ہے ، نے انکشاف کیا ہے کہ سڑک کو گرانے اور مسجد کے مغربی سمت میں کھدائی کرنے کا مقصدہیکل سلیمانی کے اہم تاریخی دروازے باركلیز کو تعمیر کرنا ہے۔ اپنے عقیدے کے مطابق یہودی پہلی مرتبہ ہیکل میں اسی دروازے سے داخل ہوں گے۔
3. یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پل کے ذریعے ایک کشادہ راستہ تعمیر کرنے کا مقصددراصل مسجد اقصیٰ پر یہودیوں کے کسی بڑے اقدام کو ممکن بنانا ہے تاکہ بڑی تعداد میں وہ بآسانی وہاں داخل ہوسکیں اور بعد ازاں اس راستے کو مجوزہ ہیکل سلیمانی کے لئے استعمال کیا جائے۔ تحریک ِاسلامی، فلسطین کے سربراہ شیخ زائد صلاح الدین کے بقول حالیہ کاروائیوں کا مقصد مغربی دیوار کے نیچے موجود مٹی کے ٹیلے ’تل ترابیہ‘ کو منہدم کرناہے ، یہ ٹیلہ زمین سے 20 میٹر بلند ہے اوراسے اُموی دور میں تعمیر کیا گیا تھا۔ان کا کہنا ہے کہ ٹیلے کومنہدم کرنے کا مقصدیہودیوں کا مسجد میں براہ راست داخلہ کو ممکن بنانا ہے اور اس ٹیلے کے انہدام کے ساتھ دیوار براق کا تعلق مسجد سے منقطع ہوکر یہودیوں کے نوتعمیرشدہ محلے سے جاملتا ہے۔صہیونی تنظیم عیرعامیم کی رپورٹ کے مطابق اس نئے پل کی تعمیر سے اسرائیلی سیکورٹی فورسز کے 300 اہل کار بیک وقت مسجد اقصیٰ میں داخل ہوکر فوجی کاروائی کرسکیں گے۔ یاد رہے کہ نئے پل کی لمبائی 200 میٹر ہے اور یہ آٹھ ستونوں پر کھڑا کیا جائے گا۔ اس قدر مضبوط پل کی تعمیر کا مقصد محض انسانوں کے عبورکرنے کے بجائے فوجی سازوسامان، بڑے ٹرکوں اور بلڈوزروں کے گزرنے کا راستہ بنانا ہے۔
4. مسلمانوں کی مسجد اقصیٰ تک رسائی کا آسان طریقہ یہ تھا کہ سٹرک کی تعمیر کردی جاتی یا ضروری حد تک پل تعمیر کردیا جاتا، جس کی لاگت بھی معمولی ہوتی لیکن ایک بڑے پل کے نام پر لمبی چوڑی کھدائی کرکے بالکل قریب واقع مسجد اقصیٰ کی عمارت کو زمین سے مزید کھوکھلا کرنا مقصود ہے۔ دوسری طرف اس پل کا بوجہ اس قدر زیادہ ہے کہ جس مقام پر اس کا بوجہ ڈالا جارہا ہے ، مسجد ِاقصیٰ کا وہ حصہ اتنا بوجہ سہنے کی اہلیت نہیں رکھتا، اس کے نتیجے میں بھی عمارت کے جلدی منہدم ہوجانے کا اندیشہ ہے۔
مسلمانوں کے شدید احتجاج کے بعد پہلے پہل بیت المقدس کی بلدیہ نے کھدائی کا کام