کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 80
2004ء کو سٹرک کا کچھ حصہ بارشوں کے باعث گرگیا۔اسرائیلی حکومت نے اس سڑک کو خود تعمیر کرنے یا مسلمانوں کو تعمیر کی اجازت دینے کی بجائے 13/اگست 2006ء کو اسے مسمار کرنے کا فیصلہ کیا۔ جب 6 فروری 2007ء کو بلدیہ کے کئی بلڈوزروں نے اس سڑک اور اس سے ملحقہ رکاوٹوں کو مسمار کرنا شروع کیا تو ہزاروں فلسطینی مسلمان اس کو بچانے کے لئے جمع ہوگئے۔اور 9 فروری کو جمعہ کے بعد مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا جس کے نتیجے میں بلدیہ کو کھدائی روکنا پڑی۔ 11/ فروری کو اسرائیلی کابینہ نے اپنے اجلاس میں یہ قرار دیا کہ اس کھدائی سے مسجد اقصیٰ کو کوئی خطرہ نہیں ،اس کا مقصد تو دراصل ایک پل تعمیر کرنا ہے جس سے مسلمانوں کے مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے کاراستہ فراخ ہوجائے گا۔ لیکن اسرائیلی حکومت کی اس توجیہ کو باخبر فلسطینی تنظیمیں تسلیم کرنے سے انکاری ہیں ، کیونکہ ماضی میں اسرائیل نے مسجد میں مسلمان زائرین کے داخلے کی کبھی حوصلہ افزائی نہیں کی بلکہ مسجد کو پہنچنے والے نقصان کی اصلاح کی اجازت تک نہیں دی جاتی اور سامان مرمت لے جانے سے روک دیا جاتا ہے۔یہودیوں کے اس مسلسل رویے کی بنا پر مسلمانوں کے تاریخی راستہ (مغاربہ سٹرک) کو مسمارکرکے اس کے اوپر سے بڑا پل بنانے کے بارے میں مسلمانوں میں گہرے شبہات پائے جاتے ہیں جنہیں کئی پہلوؤں سے تقویت بھی ملتی ہے اور اس کی تصدیق بعض شواہد اور خفیہ تصاویر سے بھی ہوتی ہے ، یہ مختلف اندیشے حسب ِذیل ہیں : 1. دراصل یہودی اس طرح دیوارِ براق کو اپنے تصرف میں لاکر اورجنوبی دیوار کو مغربی دیوار سے ملاتے ہوئے وہاں ایک یہودی معبد (سینی گاگ) تعمیر کرنا چاہتے ہیں ، جیساکہ آثار قدیمہ کمیٹی کے چیئرمین میئربن دوف نے صہیونی پارلیمنٹ کی داخلی کمیٹی کے اجلاس میں اس امر کا خود تذکرہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کاراستہ تو معمولی اخراجات اور انتظام کے ذریعے تعمیر ہوسکتا ہے، اس قدر بڑے منصوبے کی وجہ یہ ہے کہ باب المغاربہ سے متصل تمام علاقے میں کھدائی کرکے مسجد اقصیٰ کو نقصان پہنچایا جائے۔ ان کے ہمراہ مزید 36 دیگر ماہرین آثار قدیمہ نے بھی بلدیہ کے اس اقدام کی مخالفت کی ہے اور حکومت سے یہ کام فوری طورپر بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہاں یہ بھی یاد رہنا چاہئے کہ یہودیوں کے نزدیک مسجد اقصیٰ میں اس وقت سب سے متبرک مقام دیوار براق (گریہ) ہے، جسے وہ مزعومہ ہیکل سلیمانی کی واحد