کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 79
یدیعوت احرنوت کا دعویٰ ہے کہ یہ حجرے اور دیوارِ براق سے ملحقہ مسجدتو تین برس قبل شہید کی جا چکی ہے اور اس کی تائید میں اسرائیلی ماہر آثار قدیمہ کی یہ رپورٹ پیش کر دی جاتی ہے کہ تین برس قبل مراکشی دروازے کے پاس ایک مسجد کے آثار ملے تھے جسے اعلان کئے بغیر مسمار کردیا گیا۔ اس کی ایک اور مثال یہ بھی ہے کہ جب میڈیا میں چند ماہ قبل یہ خبر شائع ہوئی کہ سابق اسرائیلی صدر موشے کستاف نے ایک یہودی معبد کا افتتاح کیا ہے تو اُس وقت فلسطینی مسلمانوں کوعلم ہوا کہ مسجد اقصیٰ سے بالکل ملحق اس مسجد کی جگہ پر ایک یہودی معبد تعمیر کردیا گیا ہے جس میں مرد وزن کیلئے دو علیحدہ ہال بنائے گئے ہیں ۔
مزید برآں 10 جنوری 2007ء کو انتہاپسند یہودی تنظیم عطيرت كوہنيم نے بیت المقدس کی بلدیہ سے مسجد اقصیٰ کے ایک اور دروازہ ’باب واد‘ (جو قبہ صخرہ کے بالمقابل ہے) سے متصلاً باہر قطانین بازار میں 200 مربع فٹ پر ایک اور یہودی معبد خانہ بنانے کا این او سی بھی حاصل کیا ہے جب کہ اس مقام پر بھی کئی اسلامی یاد گاریں موجود تھیں ۔
حالیہ اقدامات کا تعلق دراصل اس منصوبہ سے ہے جس کی رو سے مسجد اقصیٰ کو مسلمانوں اور یہودیوں میں تقسیم کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ سابق اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون نے 11/اپریل 2005ء کو واشنگٹن میں اس منصوبہ کی دستاویزات اور تصاویر امریکی حکومت کے سامنے پیش کیں ، امریکی حکومت نے اس منصوبہ کو سراہا اور اپنا کردار ادا کرنے کی حامی بھری۔ اس منصوبہ کی رو سے مسجد اقصیٰ کے جنوبی اور مغربی حصہ کو (جہاں درحقیقت مسجد اقصیٰ واقع ہے) شہید کرکے وہاں ہیکل سلیمانی کی تعمیر کرنا ہے۔
اس منصوبہ کوسامنے رکھتے ہوئے حالیہ جارحیت کو تین مراحل میں تقسیم کیا گیا ہے: مسجد اقصیٰ کے جنوب مغرب میں واقع مغاربہ سڑک کو منہدم کرنا، اس سٹرک کی جگہ ایک پل تعمیر کرنا اور تیسرے مرحلے میں دیوارِ گریہ کی توسیع کرتے ہوئے جنوبی دیوار تک کے علاقہ کو اپنے قبضے میں کرنااور وہاں دیوارِ براق (گریہ) کے ساتھ ایک بڑا یہودی معبد تعمیرکرنا۔
یاد رہے کہ مغاربہ محلہ کی طرح مغاربہ سٹرک کو بھی سلطان صلا ح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے تعمیر کرایا تھا اور فلسطینیوں کے لئے مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے کا فی الوقت واحد راستہ یہی ہے۔ یہودیوں نے اس سٹرک کے نیچے کھدائی کرکے اس کو کمزور کردیا جس کے نتیجے میں 15/فروری