کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 77
٭ براق سے دیوارِ سلوان کی طرف جاتی ہے۔ ایک طرف صہیونیوں کے خود ساختہ دعووں اور یکطرفہ اقدامات کی یہ کیفیت ہے اور دوسری طرف مسجد ِاقصیٰ کے علاقے میں نہ صرف مسلمانوں کی آزادانہ آمد ورفت پر پابندی اور سرکاری اجازت کے بغیر مسجد اقصیٰ میں داخلہ بھی بند ہے بلکہ اس علاقے کی تصویر وغیرہ لینا بھی ممنوع _________________ ٭ (حوالہ سابقہ )البتہ ایک چھوٹی اقلیت کی رائے یہ ہے کہ مسیح کے آنے سے قبل ہیکل کی تعمیر کرنا ضروری ہے، اوراس علاقے میں داخلے کے لئے کسی یہودی کو کسی خصوصی پاکیزگی کی ضرورت نہیں ۔ گو کہ یہ رائے بہت شاذ ہے لیکن چونکہ یہ دراصل یہودیوں میں صہیونیوں کی رائے ہے، اس بنا پر اُنہوں نے ابلاغی ہتھکنڈوں سے اس رائے کوملت یہود پرغالب کررکھا ہے۔ یہود کے اس داخلی فقہی اختلاف سے فائدہ اٹھا کر صہیونیوں نے قدس الاقداس کا از خود تعین بھی کردیا ہے۔ موجودہ صورتحال کو بہتر طورپر سمجھنے کیلئے بہتر ہوگا کہ یہودی نظریات کو دوقسموں میں تقسیم کرکے سمجھا جائے: صہیونی اور غیرصہیونی یہودی۔جہاں تک غیرصہیونیوں کا تعلق ہے تو ان کے ایک گروہ کا خیال تو یہ ہے کہ ہیکل سلیمانی وغیرہ میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ، نہ تو وہ بیت المقدس میں پہنچنے کو اہمیت دیتے ہیں اور نہ ہی وہاں کسی ہیکل کی تعمیر کو، اُنہوں نے ہیکل کے نظریے کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے اپنی تمام دعاؤں اور مذہبی تصورات وغیرہ میں بھی ہیکل کا لفظ باقی نہیں رہنے دیا، بالخصوص ۱۸۱۸ء سے وہ اپنی تمام عبادت گاہوں کے لئے انگریزی لفظ ٹیمپل (معبد) کا استعمال کرتے ہیں ۔ ان کا نظریہ یہ ہے کہ ہیکل کبھی بھی نہیں بنے گا۔ اور جہاں بھی معبد بن جائے ، اس سے مراد ہیکل ہی ہے۔ غیرصہیونیوں کا دوسرا (روایت پسند) گروہ اس کے برعکس ہیکل کی تعمیر کا منتظر ہے اور اس کے لئے دعائیں بھی کرتاہے، یہ لوگ اپنے معبد کو یونانی لفظ ’سینی گاگ‘ سے تعبیر کرتے ہیں اور ہیکل کے لفظ کو ہیکل سلیمانی کیلئے ہی مخصوص قرار دیتے ہیں ، لیکن ان کاموقف یہ ہے کہ ہیکل کی تعمیر کا مسئلہ مسیح کی دوبارہ آمد سے ہی مشروط ہے۔ جہاں تک صہیونی یہودیوں کا تعلق ہے تو ان کے لادین گروہ کے مطابق ہیکل وغیرہ کی تعمیر کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے، محض یہودیوں کیلئے بیت المقدس میں مستقل وطن کا قیام ایک قومی ضرورت ہے۔ یہ لوگ نہ تو کسی قربانی وغیرہ کے تصور پر یقین رکھتے ہیں اور نہ ہی ہیکل کی تعمیروغیرہ پر۔ان کا خیا ل ہے کہ صہیونیوں نے بلاوجہ ہیکل کی تعمیرکا مسئلہ کھڑا کیاہوا ہے، اسرائیل میں اس نوعیت کے صہیونیوں کی بھی بڑی تعداد پائی جاتی ہے۔ یہودیوں کا چوتھا گروہ یعنی متدین صہیونی ہی وہ واحد فرقہ ہے جو ہرقیمت پر ہیکل سلیمانی کو تعمیر کرنے پر تلا ہواہے، ان کے نزدیک ہیکل کی فوری تعمیر ہی اہم ترین مسئلہ ہے۔ یہی لوگ ہیں جو حیلوں بہانوں سے مسجد اقصیٰ اور آثارِ اسلامیہ کو ڈھانے کے لئے ہر کوشش بروئے کار لارہے ہیں ، انہی انتہاپسندوں نے بموں اور دھماکہ خیزمواد سے مسجداقصیٰ کو منہدم کرنے کی کئی بار کوشش کی۔ اس سلسلے میں اس فرقے کی ایک نمائندہ تنظیم ’اُمناء جبل ہیکل‘ (محافظانِ جبل ہیکل) کانام لیا جاسکتاہے، امریکی کروڑ پتی یہودی ٹری رائزن ہوور اس تنظیم کا اہم سپورٹر ہے۔اس فرقے کا دعویٰ ہے کہ مسجد اقصیٰ کے تمام تر احاطے پر یہود کا بلاشرکت غیرے حق ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے سابقہ مراکشی محلے میں یہودیوں کے دینی مدارس بھی قائم کررکھے ہیں اور یہاں وہ لوگوں کو قربانی اور ہیکل میں یہودی عبادتوں کی تربیت اور عسکری ٹریننگ دیتے ہیں ۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ اس فرقے کی بعض کتب اور پروپیگنڈے کا اثر یہودی عوام میں روز بروز پھیلتا جارہا ہے اور اُنہیں یہود کے دیگر فرقوں کے بالمقابل زیادہ مقبولیت مل رہی ہے جس بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ معمولی انتہاپسند اقلیت، یہودی اکثریت کواپنے مقصد کے لئے استعمال کرنے میں کسی وقت بھی کامیاب ہوسکتی ہے۔اس یہودی گروہ نے عیسائیوں کو بھی اپنے مزعومہ ہدف پر اس حد تک متاثر کرلیاہے کہ ۱۹۹۰ء میں اسرائیلی وزارتِ مذہبی اُمورکے زیر نگرانی بیت المقدس میں منعقد ہونے والی عالمی عیسائی کانفرنس میں عیسائیوں نے بھی اس نظریہ کا برملا اعتراف کیا کہ حضرت عیسیٰ ؑکا دوبارہ نزول ہیکل سلیمانی کی تعمیرسے مشروط ہے، اس لئے اُنہیں اس یہودی فرقے کی ہر طرح مدد کرنا چاہئے۔(یہ تفصیلات ۱۶ جلدوں پر مشتمل اس عربی ’انسائیکلوپیڈیابرائے یہود،یہودیت اور صہیونیت‘ سے ماخوذ ہیں جس نے ۱۹۹۹ء میں مصر میں پہلا انعام حاصل کیا ہے۔)