کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 76
حرمتی کے واقعات تو اَن گنت ہیں ۔
مزعومہ ہیکل کی تعمیر کا جنون
فروری 2007ء میں مسجد ِاقصیٰ میں ہونے والی جارحیت یوں تو اس تمام کاروائی کا ایک تسلسل ہے جو کم وبیش 39 برس سے کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے لیکن بعض پہلوؤں سے اب یہ کوششیں حتمی مرحلہ میں داخل ہوتی نظر آرہی ہیں ۔صہیونیوں کی یہ خواہش ہے کہ بیت المقدس پر قبضہ کے چالیس سال پورے ہونے پر وہ مزعومہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا آغاز کردیں ، یاد رہے کہ 18 برس قبل 17/اکتوبر 1989ء کو وہ مسجد اقصیٰ کے ساتھ تین سو پانچ ٹن وزنی پتھر رکھ کر اس کاسنگ ِبنیاد رکھ چکے ہیں ۔ اور اس سے اگلے برس 18/اکتوبر 1990ء کو مسجد اقصیٰ کے اندر بھی اس ہیکل کی تعمیرکی کوشش کرچکے ہیں ۔اب عوامی پیمانے پر ہیکل کی تعمیر کے لئے پھیلایا جانے والا جنون اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اس منصوبے کو مزید موٴخر کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اب یہودی علما نے ہیکل کی تعمیر کے آغاز کے لئے دن کا بھی تعین کر دیا ہے اور وہ دن 14/مئی 2008ء کا ہے جب اسرائیل کے قیام کو 60 برس پورے ہوجائیں گے ۔
اس سلسلے میں فضا کو مزید سازگار بنانے کے لئے یہودی علما سے شرعی رائے٭(فتوے) لیے گئے ہیں ، صہیونی تنظیموں نے ہیکل کے چھوٹے ماڈل تیارکرکے دنیا بھر کے یہودیوں میں تقسیم کردیے ہیں تاکہ اس اقدام پر اسرائیل کو مالی اور معنوی ہرطرح کی امداد اورتعاون حاصل ہوسکے، وہ کپڑا بھی سیا جا چکا ہے جو ہیکل سلیمانی کی مختلف عمارتوں پر چڑھایا جائے گا، ہیکل کے وسط میں لٹکانے کے لئے فانوس بھی تیار کیا جاچکا جس میں ’قادم بینوچز‘ نامی یہودی تاجر نے 42 کلوگرام سونا عطیہ دیا ہے، اس یہودی قبیلہ کا تعین بھی کرلیا گیا ہے جو مزعومہ ہیکل کے انتظامی اُمورسنبھالے گا، قبیلہ کانام ’لیفی‘ ہے۔ ہیکل کی حفاظت کے لئے گارڈز اور یہودی علما کا انتخاب بھی عمل میں آچکا ہے۔ ہیکل کے سلسلے میں حتمی اقدامات کے لئے 30کے قریب انتہاپسند یہودی تنظیموں نے جنوری2007ء کے آخر میں اتحاد کرلیا ہے۔
حالیہ جارحیت
اس مہم میں تیزی اس وقت آئی جب 24 جنوری 2007ء کو اسرائیل کی آثارِ قدیمہ اتھارٹی نے یہ دعویٰ کیا کہ مسجداقصیٰ کے نیچے ہیکل سلیمانی کی وہ سڑک دریافت کرلی گئی ہے جو دیوارِ
_________________
٭ یہاں ہیکل کی تعمیر کے بارے میں یہودی قوم کے شرعی موقف کا تذکرہ مناسب ہوگا، ان کے ہاں اس سلسلے میں دوموقف پائے جاتے ہیں : فقہی طورپر یہبات تو تقریباً متفقہ ہے کہ ہیکل کودوبارہ تعمیر کیا جائے کیونکہ تالمود میں یہاں قربانی وغیرہ کی تفصیلات اور احکام کا تذکرہ پایا جاتا ہے۔البتہ اس ہیکل کی دوبارہ تعمیر کی کیفیت اور وقت کے بارے میں اختلاف پایاجاتاہے۔ غالب فقہی رائے تو یہ ہے کہ اس کی تعمیر کے لئے مشیت ِالٰہی کے مطابق دورمسیح(مشیحانی) کا انتظار کیا جائے اور اس کے آنے تک تعمیرکو موقوف رکھا جائے،بعض یہودی رہنماؤں کا تو یہاں تک خیال ہے کہ انسانی ہاتھوں سے اس کی تعمیر ممکن ہی نہیں ، جبکہبعض کا عقیدہہے کہ یہ مکمل صورت میں آسمان سے نازل ہوگا۔ فقہاے یہود کا یہ بھی کہنا ہے کہ نہ تویہودی اس وقت پاک ہیں کیونکہ وہ قبروں اور مردوں کو چھونے کی وجہ سے طاہر نہیں رہے اور ان کو یہ طہارت اس سرخ بچھڑے کے خون سے حاصل ہوگی جو ابھی تک آسمان سے نازل نہیں ہوا اور نہ ہی یہودی عقیدے کے مطابق وہ جگہ (یعنی جبل موریا یا جبل بیت المقدس) بھی پاک ہے کیونکہ وہاں مسجد اقصیٰ اور ۱۰۰ کے قریب مسلم آثار موجود ہیں ۔ اس لئے ان حالات میں یہودیوں کا اس مقام پر جا کر ہیکل کو تعمیر کرنا فقہی اعتبار سے غلط ہوگا۔مزید برآں جبل موریا پر قدس الاقداس نامی متبرک ترین مقام پر یہودی عقیدے کے مطابق کسی طاہر یہودی کے قدم پڑنا بھی اس وقت تک جائز نہیں جب تک کہ وہ ایک خاص قربانی نہ دے لے، اب عین قدس الاقداس والے مقام کا تعین اور اس قربانی کا امکان اس وقت تک موقوف ہے جب تک مشیت ِالٰہی کے مطابق یہودیوں کا مسیح (ما شیح ) منتظر واپس نہ لوٹ آئے۔