کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 75
اور قوم اس میں شریک وسہیم نہیں ۔اسلامی تصورات سے قطع نظر مسلمانوں کے اس مقدس مقام پر تاریخی استحقاق کی یہ تیسری بنیاد ہے کہ عالمی رائے عامہ بھی اسے تسلیم کرتی ہے۔
چنانچہ صہیونی تحریک نے جب یہ جان لیاکہ وہ نہ تو خود اپنے اساسی نظریہ کو برملا کہنے کی قوت رکھتے ہیں اور عالمی رائے عامہ بھی اس سلسلے میں اُنہیں کوئی قانونی جواز فراہم نہیں کررہی تو اُنہوں نے مختلف حیلوں بہانوں سے اپنے ہدف کی طرف پیش قدمی جاری رکھی۔ چنانچہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی صریحاً بھی مخالفت کی گئی اور درپردہ بھی، مثلاًبیسیوں مرتبہ مختلف بہانوں سے مسجد اقصیٰ کے نیچے کھدائی کروا کر سرنگیں نکالی گئیں حتیٰ کہ 28/اگست 1981ء کو یہ انکشاف ہوا کہ یہ سرنگیں مسجد کے صحن تک پہنچ چکی ہیں جو 1988ء میں مزید آگے بڑھتے ہوئے قبہ صخرہ کے نیچے تک جا پہنچیں ۔ 1996ء میں ایریل شیرون نے باقاعدہ مسجد اقصیٰ کے نیچے ایک سرنگ کا افتتاح کیا جس کی وضاحت کرتے ہوئے عبرانی روزنامہ یدیعوت احرنوت نے اپنی 21/مارچ 1997ء کی اشاعت میں برملا کہا کہ یہودی 2 ہزار برس قدیم اس راستے کی تلاش میں ہیں جو شہر کے اندرونی حصہ سے ہیکل سلیمانی کی طرف جاتا ہے۔بڑے پیمانے پر کھودی جانے والی ان سرنگوں کا مقصددراصل یہ ہے کہ کسی طرح یہ مسجد از خود منہدم ہوجائے او را سے قدرتی آفت قرار دے دیا جائے۔
مزیدبرآں مسجد سے ملحقہ مقبرہ میں 417 قبروں کو مسمار کرکے اسے سکیڑ دیا گیا، دائرہ اوقافِ اسلامیہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 1998ء تک 3570 کے لگ بھگ اسلامی آثار کو منہدم کردیا گیا۔ یہ تو وہ اقدامات ہیں جو اقوام متحدہ کی قراردادوں سے صریحاً متصادم ہیں ، البتہ مسجد اقصیٰ کو براہ راست نقصان پہنچانے کی وھ پھر بھی ہمت نہیں کرسکے لیکن ا س کے لئے موزوں فضا کی تیاری میں اُنہوں نے کبھی کوئی کوتاہی نہیں کی، مثلاً انتہاپسند تنظیموں اور ذرائع ابلاغ کو مسجد اقصیٰ کو مسمار کرنے کے نظریے کی کھلے عام ترویج کرنے کی اجازت اور ترغیب دینا، بیت المقدس میں کھلے عام گاڑیوں میں ایسے اعلانات اور نغمے / ترانے نشر کرنا جن میں مسجد ِاقصیٰ کے خلاف عوامی غیض وغضب کو بھڑکایا جائے۔ انہی اقدامات کا نتیجہ یہ ہے کہ 11/ مئی 1980ء، 25/ جولائی1982ء، 10/اگست 1984ء اور 10/ ستمبر1998ء کی تاریخوں میں چار مرتبہ اس مسجد کو بموں اور دہماکہ خیز مواد سے مسمار کرنے کی کوششیں کی گئیں جبکہ مسجد کی بے