کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 74
مرکزی دروازہ جو اس احاطے کے جنوب مغرب میں واقع ہے، کے ساتھ ہی وہ دیوار بھی ہے جس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہاں معراج کی رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے براق کو باندھا یا کھڑا کیا تھا۔ اس تفصیل کو بیان کرنے کا مقصد ایک تو ان اُمور کی اصلاح ہے جو میڈیا پر پیش کئے جاتے ہیں ، دوسرے اس زمینی حقیقت کو جاننے کے بعد ہی مسجد ِاقصیٰ کے بارے میں حالیہ اقدامات کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ چونکہ مسجد ِاقصیٰ کا یہ مرکزی دروازہ ہے اور اس کے ساتھ دیوارِ براق بھی واقع ہے، جسے یہودی دیوارِ گریہ کا نام دیتے ہیں ، اسلئے اس سارے احاطے میں اس جنوب مغربی حصہ کے اہمیت کئی لحاظ سے کافی بڑھ جاتی ہے اور حالیہ جارحیت کی طرح پہلے بھی برسہا برس مسجد کا یہی حصہ یہودی شورشوں اور سازشوں کا مرکز رہا ہے۔[1] اس دروازہ کے باہر واقع رہائشی علاقہ کا نام حی المغاربہ (مراکشی محلہ) ہے۔ جون 1967ء میں بیت المقدس پر یہودی تسلط کے فوراً بعد جولائی میں جن عمارتوں کومسمار کیا گیا، وہ یہی مراکشی محلہ تھا۔ تاریخی طورپر یہ علاقہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کوعیسائیوں سے واگزار کرانے کے بعد مراکشیوں کی خدمات کے اعتراف میں ان کو عطا کیا تھا۔ جب جولائی 1967ء میں اس علاقے کو مسمار کیا گیا تو اس کے نتیجے میں تین ہزار گھرانے بے گھر ہوگئے اور اس میں موجود چار مسجدیں اور ایک مدرسہ افضليہ[2] بھی ڈھا دیا گیا۔ اسی علاقے میں مسجد ِاقصیٰ کے زائرین اور حصولِ علم کے لئے آنے والے طلبہ واساتذہ سکونت پذیر ہوتے تھے۔ اب اس مقام پر گذشتہ 39 برسوں میں یہودیوں نے جدید عمارتیں تعمیر کرلی ہیں ۔ بیت المقدس پر تسلط کے پہلے ماہ میں ہی ایسی جارحانہ کاروائیوں کا نوٹس لیتے ہوئے یہ مسئلہ اقوامِ متحدہ میں اٹھایا گیا اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے فوری طورپر 4/جولائی 1967ء کو یہ قرار داد منظور کی کہ بیت المقدس کی سابقہ حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔یہ بھی قرار دیا گیا کہ مسجد اقصیٰ میں موجود تمام آثار کے متولی مسلمان ہی ہیں ، کوئی