کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 73
اور کھدائی کے باوجود اس سرزمین میں اس کے آثار بھی کہیں دریافت نہیں کئے جا سکے۔ اس بنا پر بھی یہودیوں کو سرکاری طورپر یہ اس مسجد پر اپناحق جمانے کی جرات نہیں ہوتی۔
لیکن جہاں یہ حقیقت ہے کہ مسجد ِاقصیٰ پر اہل کتاب کا کوئی گروہ اپنا دعویٰ کرنے کی جسارت نہیں کرسکتا، وہاں عملاً صہیونی تحریک کے پیدا کردہ جنون کے زیر اثراسرائیل کے قیام کے دن سے یہ مسجد یہودیوں کی شر انگیزی کا نشانہ ہے۔ جب 1967ء میں ابھی بیت المقدس پراسرائیل کا غاصبانہ قبضہ نہیں ہوا تھا، اس سے پہلے ریاست ِاسرائیل کے قیام کے بعد ہی اس مسجد پر گولہ باری کا آغاز ہوگیا، جس کے نتیجے میں پہنچنے والے نقصان کے مداوا کے لئے 1958ء میں مسلم ممالک کے مشترکہ چندے سے مسجد کی تعمیر کا آغاز کیا گیا۔ یاد رہے کہ ابھی اس سے چند برس قبل 1930ء سے 1942ء کے دوران مسجد کی اصلاح وتعمیر کا کام برطانوی استعمار کے زیر نگرانی مکمل کیا گیا تھا ۔ بعد ازاں 27 جون 1967ء کو بیت المقدس کو جب قانونی طور پر اسرائیلی حکومت نے اپنے تسلط میں لے لیاتو اس کے بعد سے یہودیوں کی شرانگیزیوں میں کئی گنا اضافہ ہوگیا اور انہوں نے اس سے اگلے مہینے جولائی میں ہی مسجد سے ملحقہ عمارتوں کو مسمار کرنا شروع کردیا۔
مسجد ِاقصیٰ کا احاطہ 4400 مربع میٹر پرپھیلا ہوا ہے جس میں قبہ صخرہ، قبہ سلسلہ، قبہ موسیٰ، جامع نساء، جامع عمر، مصلی مروانی، سبیلیں ، کنویں ، درسی چبوترے، وضوخانہ اور اسلامی میوزیم وغیرہ شامل ہیں ۔ اس احاطے میں داخل ہونے کا مرکزی راستہ احاطے کی جنوب مغربی دیوار میں واقع ہے جسے باب المغاربہ کہتے ہیں ۔ یوں تو اس احاطے میں داخل ہونے کے اور بھی کئی دروازے ہیں جن کی تعداد 11 ہے، لیکن یہ دروازہ اس اعتبار سے اہم ہے کہ احاطے میں موجود مسجد اقصیٰ تک پہنچنے کا اصل دروازہ یہی ہے۔ اس دروازے میں داخل ہوتے ہی دائیں ہاتھ اسلامی میوزیم ہے، اور سامنے مسجد ِاقصیٰ ہے جس کے دائیں پہلو میں خواتین کے لئے جائے نمازہے اور بائیں پہلومیں وہ ہال ہے جس کو جامع عمر کہا جاتا ہے۔ اس مرکزی مسجد سے قدرے ہٹ کر احاطے کے دوسرے نصف میں قبہ صخرہ موجود ہے۔ یہ وہی سنہرا گنبد ہے جسے میڈیا میں عموماً مسجد اقصیٰ کے طورپر پیش کیا جاتا ہے، جبکہ درحقیقت ایسا نہیں ۔ اس گنبد کے جنوبی سمت ایسی ہی ایک چھوٹی عمارت بھی ہے جو قبہ موسیٰ کے نام سے مشہور ہے۔مسجد ِاقصیٰ کا