کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 72
مداوا کرنے کی کوششیں بھی کرتی رہی ہے۔ مثال کے طورپر 21/اگست 1969ء میں جب آسٹریلیا کے ایک یہودی ڈینس مائیکل (یا ڈینس روہان) کے ذریعے مسجد میں آگ لگائی گئی جو 400 مربع میٹر تک پھیل گئی تو اسرائیلی انتظامیہ نے عملاً آگ بجھانے کی کاروائیوں کو ممکنہ حد تک موٴخر کرنے کی کوشش کی تاکہ مسجد کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچ سکے، لیکن دوسری طرف اس یہودی کے خلاف اسرائیلی عدالت میں مقدمہ بھی چلایا اور آخرکار اس کو جنونی قرار دے کر بری کردیاگیا۔ اس موقعہ پر مسجد کا کافی حصہ جل جانے کے علاوہ کئی نوادرات بھی شدید متاثرہوئے جن میں وہ منبر بھی شامل تھا جو سلطان صلاح الدین ایوبی نے بطورِ خاص اس مسجد میں رکھوایا تھا۔ اس وقت بھی یہودی حکومت نے اس سازوسامان کی از سر نو اصلاح کرانے کا دعویٰ کیا اور اُردن کے ہاشمی خاندان سے ملنے والا ایسا ہی ایک منبر دوبارہ نصب بھی کرایا۔ ان اقدامات سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیلی حکومت اپنی تمام تر انتہاپسندی اور تعصب کے باوجود یہ دعویٰ نہیں کرتی کہ اس مسجد پر وہ من مانے تصرف کی مجاز ہے۔ مسجد ِاقصیٰ کا انہدام تحریک ِصہیونیت کا مرکزی نکتہ ہے لیکن اسرائیلی حکومت کو باضابطہ طورپر اس پر اپنا حق جمانے کی آج تک جرات نہ ہوسکی، اس مسجد پر مسلمانوں کے استحقاق کی وجہ تاریخی طورپر یہ ہے کہ جب مسلمانوں نے اس مقام پر مسجد کو تعمیر کیا تھا تواس وقت یہ جگہ ویران تھی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خود یہاں سے کوڑا کرکٹ صاف کرکے اس مسجد کو قائم کیا تھا۔ خلیفہ راشد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں کیاجاسکتا کہ آپ جیسا عادل حکمران کسی اور قوم کی عبادت گاہ پر اسلامی مرکز تعمیر کرکے کسی دوسری قوم کا مذہبی حق غصب کریں گے۔ بعض روایات میں تویہاں تک آتا ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیت المقدس میں آئے تو یہاں موجود عیسائیوں کے گرجاؤں میں بھی آپ کو جانے کا موقع ملا، اور وہاں آپ سے نماز ادا کرنے کو کہا گیا تو محض اس بنا پر آپ نے وہاں نماز نہیں پڑھی کہ آپ کے اس فعل کو مبارک سمجھ کر بعد میں آنے والے مسلمان اس جگہ پر مسجد تعمیر کرنے کا خیال دل میں نہ لے آئیں ۔ بعدازاں مسلمانوں نے چودہ صدیوں میں مسجد ِاقصیٰ کی کئی بار اصلاح اور تعمیر کی اور ہمیشہ ا س مرکز کو بھرپور تقدس فراہم کیا۔ علاوہ ازیں تحریک ِصہیونیت جس ہیکل کی تعمیر کی دعویدار ہے، 39 برس کی مسلسل کوششوں