کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 71
بجائے یہود کے حوالے کردی۔ اس بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کی طرح قضیہ فلسطین… جو دنیاکے دو اہم مسئلے اور جنگوں کی بنیادی وجہ رہے ہیں او رہردو مسلمانوں کے ساتھ ظلم روا رکھا گیا ہے… کو پیدا کرنے والی حکومت برطانیہ ہی ہے، جن کو بعد میں حل کرنے کی بجائے ظالم کی سرپرستی کرکے امریکہ مزید پنپنے کے مواقع فراہم کررہا ہے۔ جہاں تک اس سرزمین پر یہودی قبضے اور اسے ان کا وطن قرار دینے کا تعلق ہے تو عالمی قوتوں کی کھلم کھلا تائید کے بعد ہی یہود کا اس پر غاصبانہ قبضہ ہواجس میں اِنہی قوتوں کی مدد سے 1967ء میں اسرائیل نے بیت المقدس تک مزید توسیع کرلی۔ یہ اس مسئلہ کا ایک سیاسی پہلو ہے اور ایک مستقل موضوع ہے کہ یہودیوں کو یہاں بساتے ہوئے عالمی قوتوں نے یہاں کے باشندوں سے کونسی زیادتیوں کا ارتکاب کیا۔ اس پہلو کو ہم فی الحال موٴخر کرتے ہیں ۔ جہاں تک تحریک ِصہیونیت کے دوسرے نظریے کا تعلق ہے یعنی مسجد اقصیٰ کی جگہ مزعومہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر تو یہ واضح رہنا چاہئے کہ نہ صرف سپر قوتیں ، عالمی رائے عامہ بلکہ خود اسرائیلی حکومت نے بھی کبھی موجودہ ’مسجد ِاقصیٰ‘ پر قانونی حق رکھنے کا دعویٰ نہیں کیا۔ صہیونیوں کے پاس محض ایک پروپیگنڈہ ہے کہ اس مسجد کے نیچے ہیکل سلیمانی کے آثار موجود ہیں ، اس بنا پر جذباتی طورپر وہ اس مسجد کو نعوذ باللہ منہدم کرکے یہاں ہیکل سلیمانی بنانا چاہتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بیت المقدس پریہود کے غاصبانہ قبضہ کو 39 برس پورے ہونے کے باوجود اُنہوں نے کھلم کھلا سرکاری طورپر اس کو منہدم کرنے کا عزم کبھی ظاہر نہیں کیا بلکہ وہ ہمیشہ سے ہی بظاہر اس کی حفاظت کا ہی دعویٰ کرتے رہے ہیں ۔ چونکہ مسجد ِاقصیٰ اس وقت بیت المقدس (یہودیوں کا دیا ہوا نام:یروشلم) کی انتظامیہ کے زیر نگرانی ہے، اس بنا پر یہود کوکئی ایسے جوازحاصل ہوجاتے ہیں کہ وہ مختلف حیلوں بہانوں سے عملاً مسجد پر جارحیت کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں ۔ اس مسجد پر مسلمانوں کے قانونی استحقاق کو یہودیوں کے تسلیم کرنے کا پتہ اس امر سے بھی چلتا ہے کہ 1967ء میں بیت المقدس پر قبضہ کرنے کے بعد اُنہوں نے اس مسجد کا متولی اُردن کے ہاشمی خاندان کو قرار دیا اوراس کے بعد سے احاطہ قدس کا کنٹرول بظاہر یروشلم کے مسلم وقف کے ہی حوالے ہے۔ (’الشریعہ‘ بابت ستمبر2003ء، ص 40) ایسے ہی جب بھی اس مسجد کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہوئی تو اسرائیلی حکومت بظاہر اس کا