کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 70
بیت المقدس [1]یا اس پہاڑی کے لئے بولاجاتا ہے جس پر مسجد اقصیٰ موجودہے، اس لحاظ سے ارضِ مقدس کے علاقہ کو اپنے وطن کے لئے منتخب کرنا اور مسجد اقصیٰ کی جگہ اپنے معبد کو تعمیر کرنا ہی تحریک ِصہیونیت کے بنیادی اہداف ہیں ۔ اس تحریک کے پہلے ہدف یعنی ارضِ مقدس کو یہودی وطن قرار دینے کے بارے میں یاد رہنا چاہئے کہ برطانیہ نے اس مقصد کے لئے پہلے پہل یہود کو براعظم افریقہ کے بعض ممالک:ایتھوپیا، تنزانیہ وغیرہ دینے کی پیش کش بھی کی تھی کیونکہ بیت المقدس کویہ مقدس حیثیت تمام یہودیوں کے ہاں حاصل نہیں بلکہ بعض یہودی مثلاً افریسی فرقہ یہ حیثیت افریقی ملک ایتھوپیا کے ایک مقام کو دیتے ہیں اوران کے نزدیک تابوتِ عہد بھی وہیں ہے۔ یہ فرقہ نہ بیت المقدس کو یہ حیثیت دیتا ہے اور نہ ہی ہیکل کوتعمیر کرنے کا داعی ہے جبکہ سامری فرقہ نابلس شہر کو مقدس حیثیت دیتا ہے[2]لیکن آخر کار یہود کے تسلیم نہ کرنے کی بنا پر 1948ء میں برطانیہ نے یہاں سے واپس جاتے ہوئے فلسطین کی سرزمین اس کے اصل باشندوں کی