کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 146
مجھے یہ کہتے ہوئے کوئی باک نہیں کہ ہر انصاف پسند یہ دیکھ رہا ہے کہ آج بھی غیرمسلم اسی امتیاز اور اسی شان سے بلادِ اسلامیہ میں رہ رہے ہیں ۔ آج بھی اُنہیں وہی حقوق حاصل ہیں ، بلکہ طرفہ تماشا یہ ہے کہ اکثر اسلامی ممالک میں وہ اقلیت ہونے کے باوجود برسراقتدار بھی ہیں ۔ ہم غیر مسلموں سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ انصاف کے علمبردار بنیں اور حق کا ساتھ دیں خواہ اس کی زد ان کے اوپر ہی کیوں نہ پڑ رہی ہو، جیسا کہ ہم مسلمان بھی اس کے مامور ہیں ۔فرمانِ الٰہی ہے: ﴿يٰاَيُّها الَّذِيْنَ آمَنُوْا كُوْنُوْا قَوَّامِيْنَ بِالْقِسْطِ شُهدَآءَ لله وَلَوْ علٰی أَنْفُسِكُمْ أوِ الْوَالِدَيْنِ وَالأَقْرَبِيْنَ إنْ يَّكُنْ غَنِيًّا أوْ فَقِيْرًا فَالله أولٰی بِهمَا فَلَا تَتَّبِعُوْا الْهوٰى أنْ تَعْدِلُوْا وَإنْ تَلْوُوْا أَوْ تُعْرِضُوْا فَإنَّ الله كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا﴾ ”اے ایمان والو! انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو، اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ ان کا خیرخواہ ہے ،لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل کا دامن ہاتہ سے چھوڑ نہ دو اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا حق سے پہلو تھی کی تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو ،اللہ کو اس کی خبر ہے۔“ (النساء :135) ان لوگوں کایہ اعتراض سراسر اِفترا ہے،کیونکہ خود اسلامی ممالک میں بسنے والے غیرمسلم اپنے ساتھ مسلمانوں کے اچھے سلوک کی گواہی دے رہے ہیں ۔ میں اس کی صرف دو مثالیں ذکر کرنے پر اکتفا کروں گا: 1. مصری عیسائیوں نے 5 نومبر 1998ء کو اخبار Herald Tribune میں مکمل صفحے کا ایک اشتہار شائع کیا جس پر دو ہزار سے زائد مشہور عیسائی مصنّفین، صحافیوں ، ملازمین، وکلا، ڈاکٹرز اور دیگر اعلیٰ شخصیات کے دستخط تھے۔اُنہوں نے یہ کہا کہ قبطی عیسائیوں کو مصر میں اپنے مذہبی شعائر بجا لانے کی کھلی آزادی ہے۔ وہ اپنے گرجے تعمیر کرتے ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ ان کے تعلقات انتہائی خوشگوار ہیں اور وہ اجتماعی طور پربالکل متحد ہیں ۔51 2. یہودی حکومت کے وزیر خارجہ تیونس نژاد سلفان شالوم نے فلسطین میں ’الشرق الاوسط‘ اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ بات کہی: _________________ الإسلام في عیون السویسریین: ۲۱