کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 145
فکر کا نتیجہ اور ا س کے ذہن کی اختراع نہیں ہیں کہ اُنہیں کسی معاشرے، طبقہ یا کسی حاکم کی رائے سے ناقابل عمل قرار دے دیا جائے یا ان میں کوئی تبدیلی کردی جائے۔ وہ اسلام کے مستقل اور ناقابل تغییر احکام ہیں ،جنہیں روشن خیال اعتدال پسندی کے نام سے تغیر و تبدل اور تحریف و تاویل کی سان پر نہیں چڑھایا جاسکتا۔ اسلام کے ان اَوامر کو معطل اور نظر انداز کرنا اور ان کے خلاف وضعی قوانین پر عمل کرنا کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے اور جہاں تک جدید بین الاقوامی انسانی حقوق کے معاہدوں اور مواثیق کا تعلق ہیں ،وہ یقیناانسانی ذہن کی تخلیق اور کاوشِ فکر کا نتیجہ ہیں ، یہ سب وضعی قوانین ہیں ، معاشرہ اور قانون ساز افراد ان قوانین کو جب چاہیں معطل اور تبدیل کرسکتے ہیں ۔ بلکہ بعض ممالک نے یہی طریقہ کار اختیارکیا ہے کہ ان میں سے جو قوانین ان کے مقاصد کی تکمیل کرتے ہیں اُنہیں اختیارکرلیتے ہیں اور باقی کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی حقوق کے متعلق وضعی قوانین، معاہدے اور چارٹر طاقتور ممالک کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن چکے ہیں ، جنہیں وہ بعض مخصوص ممالک سے اپنے مطالبات منوانے اور اپنے اقتصادی اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے بطورِ ہتھیار استعمال کررہے ہیں ۔ لیکن شریعت ِاسلامیہ کے تمام احکام جس میں غیرمسلموں کے حقوق بھی شامل ہیں ، انسانی خواہشات و مقاصد، زمان و مکان اور حالات کے تابع نہیں ہیں ، یہ آج بھی ویسے ہی قابل نفاذ اور قابل عمل ہیں جیسے آج سے چودہ سو سال قبل تھے۔ ان کو معطل کرنے والا اور ان میں کمی بیشی کرنے والا یقینا بہت بڑا مجرم اور انسانیت کا دشمن ہوگا۔
2. دوسری بات جو میں ذکر کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ سابقہ تاریخی مثالوں سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ بلادِ اسلامیہ میں مقیم غیر مسلم اقوام کے ساتھ جس طرح عدل و مساوات کا سلوک روا رکھا گیا اور کس طر ح ان کے حقوق کا ہر ممکن تحفظ کیا گیا، اس کی نظیر گذشتہ اقوام اور غیر مسلم ممالک میں نہیں ملتی۔اب بعض غیر مسلموں کی طرف سے یہ کہا جارہا ہے کہ یہ حقوق دورِ قدیم میں تو غیرمسلموں کو حاصل تھے ،لیکن آج کے اسلامی ممالک میں معاملہ اس کے برعکس ہے، اور وہاں غیر مسلم ان حقوق سے محروم ہیں ۔