کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 143
”اگر اللہ ہمیں فتح یاب کرتا ہے تو ان کو حقوقِ ذمہ بدستور حاصل رہیں گے، اس کی ضمانت ہم اللہ سے کئے ہوئے عہد اور اس پختہ ترین میثاق کے حوالہ سے دیتے ہیں جو اس نے اپنے کسی نبی سے لیا ہے۔ اس کا حوالہ دے کر ہم ان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان شرائط کی خلاف ورزی نہ کریں اور اگر ان پر کوئی اور طاقت غالب آجائے تو اُنہیں اس بات کی آزادی ہوگی کہ اہل ذمہ جو کچھ کرسکتے ہیں ، وہ کریں ۔ البتہ جن باتوں کا اُنہیں حکم دیا جائے، ان کی خلاف ورزی نہ ہوگی۔ میں نے ان کے لئے یہ حق بھی رکھا ہے کہ جو شخص بڑھاپے کے باعث از کارِ رفتہ ہوجائے، یا اس پر کوئی آفت ٹوٹ پڑے، یا وہ مال دار تھا اور اب فقیر ہوگیا ہے کہ اس کے ہم مذہب اس کو صدقہ و خیرات دینے لگے ہیں تو اس کا جزیہ معاف کردیا جائے گا اور اسے اور اس کے بال بچوں کو مسلمانوں کے بیت المال سے خرچ دیا جائے گا جب تک کہ وہ دارِہجرت اور دارِاسلام میں قیام کرے۔ البتہ اگر ایسے لوگ دارِہجرت اور دارِاسلام کو چھوڑ کر باہر چلیں جائیں تو ان کے اہل و عیال کی کفالت مسلمانوں کے ذمہ نہ ہوگی۔“
٭ شام کے سفر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک قوم کے پاس سے گزرے جو کوڑہ کے مرض میں مبتلا تھی تو ان کو صدقات دینے اور امدادی وظائف مقرر کرنے کے احکام جاری کئے۔48
امیرالموٴمنین عمر رضی اللہ عنہ بن عبدالعزیز نے بصرہ کے گورنر عدی بن ارطاة کو یہ حکم جاری کیا:
وانظر من قبلك من أهل الذمة من قد كبرت سنه وضعفت قوته، وولت عنه المكاسب فأجر عليه من بيت مال المسلمين ما يصلحه.49
”اپنے علاقہ کے اہل ذمہ کا جائزہ لیں ، ان میں سے جو شخص بڑھاپے اور کمزوری کے باعث ازکار رفتہ ہوگیا ہے،اس کے لئے بیت المال سے اس کے مناسب حال وظیفہ مقرر کردیں ۔“
٭ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان بھی ہے:
﴿لَا يَنْهٰكُمُ الله عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فی الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أنْ تَبَرُّوْهمْ وَتُقْسِطُوْا إلَيْهمْ إنَّ الله يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ﴾(الممتحنہ:8)
”اللہ تمہیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاوٴ کرو جنہوں نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں
__________________
فتوح البلدان :۱۳۵،غیر المسلمین في المجتمع الإسلامي : ۱۷
کتاب الأموال : ۵۷،الأموال، از ابن زنجویہ: ۱۵۲