کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 142
حوالہ سے بیان کیا ہے کہ
امیرالمومنین عمرفاروق رضی اللہ عنہ ایک دروازے سے گزرے، وہاں ایک ضعیف العمر نابینے آدمی کو بھیک مانگتے دیکھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اسے پیچھے سے کہنی ماری اور پوچھا: اہل کتاب کی کس نوع سے تعلق ہے؟ اس نے جواب دیا: یہودی ہوں ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کس چیز نے تجھے یہ بھیک مانگنے پر مجبور کیا ہے۔ اس نے کہا: بوڑھا ہوں ، اپنی ضروریات اور جزیہ ادا کرنے کے لئے بھیک مانگتا ہوں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا ہاتھ پکڑا اورگھر لے گئے اور گھر سے کچھ مال اس کو دیا۔ اس کے بعد خزانچی کو بلوا کر کہا :
”اس کو اور اس قسم کے لوگوں کو دیکھو، خدا کی قسم! یہ ہرگز انصاف نہیں ہے کہ ہم اس کی جوانی سے تو فائدہ اُٹھائیں اور بڑھاپے میں اسے رسوا ہونے کے لئے چھوڑ دیں :﴿إِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِيْنِ وَالْعَامِلِيْنَ عَلَيْها وَالْمُوٴَلَّفَةِ قُلُوْبُهمْ وفی الرِّقَابِ وَالْغَارِمِيْنَ وفی سَبِيْلِ الله وَابْنِ السَّبِيْلِ فَرِيْضَةً مِّنَ الله وَالله عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ﴾(التوبة:60)یہ مساکین اہل کتاب میں سے ہے۔ اس کے بعد آپ نے اس کا اور اس قسم کے تمام ذمیوں کا جزیہ معاف کردیا۔“
راوی ابوبکرکا بیان ہے کہ میں اس واقعہ کا عینی شاہد ہوں اور میں نے اس بوڑھے کو دیکھاہے۔
٭ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور اہل حیرہ کے درمیان جو صلح نامہ لکھا گیا تھا، اسکے الفاظ یہ تھے:
فإن فتح الله علينا فهم على ذمتهم،لهم بذلك عهد الله وميثاقه أشد ما أخذ على نبي من عهد أو ميثاق وعليهم مثل ذلك لا يخالفوا فإن غلبوا فهم في سعة يسعهم ما وسع أهل الذمة،ولا يحل فيما أمروا به أن يخالفوا،وجعلت لهم أيما شيخ ضعف عن العمل، أو أصابته آفة من الآفات،أو كان غنيا فافتقر،وصار أهل دينه يتصدقون عليه،طرحت جزيته،وعيل من بيت مال المسلمين وعياله، ما أقام بدار الهجرة ودار الإسلام،فإن خرجوا إلى غير دار الهجرة ودار الإسلام فليس على المسلمين النفقة على عيالهم.47
__________________
أیضاً: ۱۵۵، ۱۵۶