کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 140
ومن ظلم أحدا منهم، أو تعدى عليه، فإنا نعاقبه بحول الله.
وهذا الأمر الذي قررناه وأوضحناه وبيناه كان مقررا ومعروفا ومحررا، لكن زدنا هذا المسطور تقريرًا وتأكيدًا ووعيدًا في حق من يريد ظلمهم وتشديدا ؛ ليزيد اليهود أمنًا إلى أمنهم، ومن يريد التعدي عليهم خوفا إلى خوفهم.“43
”تمام گورنروں ، ملازمین اور حکومت کے کسی بھی شعبہ سے منسلک تمام افراد کے لئے ہمارا یہ حکم ہے کہ وہ ہمارے تمام صوبوں میں بسنے والے یہودیوں کے لئے حق و انصاف کا ترازو قائم کریں ، جس کا اللہ نے انہیں حکم دیا ہے۔ فیصلوں میں ان کے اور دیگر لوگوں کے درمیان اس طرح مساوات قائم کریں کہ کسی یہودی کو ذرّہ برابر بھی ظلم و ستم اور تکلیف نہ پہنچنے پائے۔ ان کی جانوں اور اَموال پر نہ تو خود زیادتی کریں اور نہ کسی دوسرے کو کرنے دیں اور ان میں سے اہل صنعت وحرفت لوگوں سے کوئی ایسا کام نہ لیا جائے جس پر وہ راضی نہ ہو ں اور اُنہیں ان کے کام کا پورا پورا معاوضہ دیا جائے جس کے وہ واقعی مستحق ہیں کیونکہ ظلم دراصل روزِ قیامت کی ظلمتیں ہیں ، جس کے ہم روا دار نہیں ہوسکتے، نہ ان کے حقوق میں اور دوسروں کے حقوق میں ۔ حقوق کے سلسلہ میں ہمارے نزدیک سب لوگ برابر ہیں ، جس نے ان پر کسی قسم کی ظلم و زیادتی کی، اللہ کی توفیق سے ہم اسے ضرور سزا سے دوچار کریں گے۔
یہ حکم نامہ جو میں نے بیان کیا ہے، اگرچہ یہ پہلے سے معروف اور تحریر شدہ موجود ہے لیکن ان سطور کا اضافہ محض تاکید اور اس شخص کو خبردار کرنے کیلئے ہے جو اہل یہود پر کسی ظلم اور زیادتی کا خواہاں ہے تاکہ ظالم کو کان ہوجائیں اور اہل یہود کے امن و امان میں اضافہ ہوجائے۔“
٭ بے شمار انصاف پسند مغربی مفکرین نے بھی مسلمانوں کی اس عظیم خوبی کا اعتراف کیاہے۔مشہور مستشرق رینو لکھتا ہے :
”اندلس میں مسلمانوں کا وہاں کے عیسائی باشندوں کے ساتھ نہایت اچھا سلوک تہا، اسی طرح نصاریٰ نے بھی مسلمانوں کے جذبات کا لحاظ رکھا۔ وہ اپنی اولاد کا ختنہ کرتے تھے اور خنزیر کا گوشت نہیں کھاتے تھے۔“44
٭ بلکہ ڈاکٹر گوسٹاف لیبن(Gustav LeBon) نے دیگر اقوام عالم میں اس تیزی کے
__________________
الأقلیات الدینیۃ والحل الإسلامي: ۵۸،۵۹
من روائع حضارتنا : ۱۴۷