کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 138
تقاضا کی تلقین کرو۔ جاوٴ اے عمر! اس کو ساتھ لے لو اور اس کا قرض ادا کرو اور 20 صاع کھجور زیادہ دے دو۔“ یہودی نے یہ پیغمبرانہ رویہ دیکھا تو بول اُٹھا:
أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمداً عبده ورسوله38
”میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم یقینا اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔“
صبر و تحمل کی یہ انتہائی مثال ہے جو ہمیں کسی دوسری جماعت کی تاریخ میں نہیں مل سکتی۔
٭ سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور ورق پلٹئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہود کے کچھ لوگ آئے اور کہا: السام عليكم(تم پر ہلاکت ہو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: وعليكم (تمہارے اوپر) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : میں یہودیوں کی با ت سمجھ گئی اور میں نے کہہ دیا: وعليكم السام واللعنة(تمہارے اوپرہلاکت اور لعنت ہو) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ یوں نہ کہو! اللہ تعالیٰ معاملات میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، کیا آپ نے ان کی بات نہیں سنی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے کہہ تو دیا تھا کہ تمہارے اوپر ہو۔39
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک اور رواداری میں آپ کی سیرت کو نقش قدم بنایا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جب ایک تنگ دست یہودی کو بھیک مانگتے دیکھا تو بیت المال سے ہمیشہ کے لئے اس کا اور اس کے اہل و عیال کا روزینہ مقرر کردیا اور بطورِ دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان پیش کیا:
﴿إنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِيْنِ وَالْعَامِلِيْنَ عَلَيْها وَالْمُوٴَلَّفَةِ قُلُوْبُهمْ وفی الرِّقَابِ وَالْغَارِمِيْنَ وفی سَبِيْلِ الله وَابْنِ السَّبِيْلِ فَرِيْضَةً مِّنَ الله وَالله عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ﴾ (التوبہ:60)
”صدقات صرف فقیروں اور مسکینوں کے لئے ہیں اور ان لوگوں کے لئے جو صدقات کے کام پرمامور ہیں اور ان کے لئے جن کی تالیف ِقلبی مطلوب ہو، نیز یہ کہ گردنوں کے چھڑانے اور قرض داروں کی مدد کرنے کے لئے ہیں اور راہ خدا میں اور مسافر نوازی میں استعمال کرنے
__________________
البدایۃ والنھایۃ ۳/۵۰۷، دلائل النبوۃ: ۴۸
صحیح البخاري:۷/۸۰ ،صحیح مسلم :۱/۱۷۰۶