کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 137
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں اپنی مسجد میں ٹھرایا اور خود اپنے ہاتھ سے ان کی ضیافت و خدمت کے فرائض انجام دیئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان حبشیوں کے ساتھ عمدہ اخلاق اور حسن سلوک یہ مظاہرہ ان کے اس حسن سلوک کا بدلہ تھا جو اُنہوں نے مہاجرین حبشہ کے ساتھ روا رکھا تھا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(إنهم كانوا لأصحابنا مكرمين فأحب أن أكرمهم بنفسي)
”اُنہوں نے ہمارے اصحاب کی عزت افزائی کی تھی تو کیوں نہ میں خود ان کی عزت و تکریم کروں ۔“37
٭ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کی بھی حسن سلوک کے اسی نہج پر تربیت فرماتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بسوس و داحس اور فجار ایسی خون آشام داستانوں کی گود میں پرورش پانے والوں کو صبروتحمل کا پیکر بنا دیا تھا۔علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ
”زیدبن سعنہ نامی ایک یہودی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا قرض واپس لینا تھا، وہ قرض مانگنے آیا اور آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گریبان اور چادر پکڑ لی اور زور سے کھینچا۔ وہ گالیاں بھی بک رہا تھا اور ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غضب آلودنگاہوں سے دیکھ رہاتھا،کہنے لگا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا میرا قرض ادا نہیں کرو گے؟ تم اے عبدالمطلب کی اولاد! بڑے بدمعاملہ لوگ ہو۔ اس کا طرزِ گفتگو انتہائی جارحانہ تھا۔ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اس یہودی کی طرف دیکھا، ان کی نگاہیں اس کے سر میں یوں گھوم رہی تھیں جیسے کشتی بہنور میں چکر لگاتی ہے۔پھر کہا: اے اللہ کے دشمن! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ بدکلامی اور بے باکی جو میں سن رہا ہوں ؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تیرا یہ سلوک جو میں دیکھ رہا ہوں ۔ اس ذات کی قسم، جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق دے کربھیجا ہے! اگر مجھے آپ کی ملامت کا ڈر نہ ہوتا تو میں تلوار سے تیرا سرقلم کردیتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سکون اور محبت کے ساتھ عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھ رہے تھے اور مسکراہٹ آپ کے چہرے پر پھیل گئی تھی۔ پھر فرمایا: (أنا وهو يا عمر كنا أحوج إلى غير هذا منك يا عمر: أن تأمرني بحسن الأداء وتأمره بحسن التقاضي اذهب به يا عمر فاقضه حقه وزده عشرين صاعًا من تمر) ”مجھے اور اس (یہودی) کو اے عمر، اس وقت جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، وہ یہ کہ مجھے حسن ادائیگی کی تلقین کرو اور اسے حسن
__________________
معجم الشیوخ : ۱/۹۷،مکارم الأخلاق : ۱/۱۱۱، التذکرۃ الحمدونیۃ: ۳/۹۵، من روائع حضارتنا: ۱۳۴