کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 136
کے بھوکوں کو کھانا کھلایا جائے، ان کے بے لباسوں کو لباس مہیا کیا جائے، ان کے ساتھ ازراہ تلطف نرمی سے گفتگو کی جائے ۔ ان پر خوف اور ذلت مسلط نہ کی جائے، ان کے پڑوس میں رہتے ہوئے اگر ان کی طرف سے کوئی اذیت پہنچے تو از راہ کرم اسے برداشت کیا جائے۔ ان کے لئے ہدایت کی دعا کی جائے کہ اللہ تعالیٰ اُنہیں سعادت مندوں میں سے بنا دے۔ دین ودنیا کے تمام معاملات میں ان کے ساتھ خیر خواہی کی جائے۔ ان کی عدم موجودگی میں اگر کوئی شخص ان کی عزت، مال و متاع اور اہل و عیال کے درپے ہو تو اس کی حفاظت کا سامان کیا جائے، الغرض ان کے تمام حقوق اور مصالح کا تحفظ کیا جائے اور دست ِظلم کو ان کی طرف بڑھنے نہ دیا جائے اور ان کے تمام حقوق ان کے گھر کی دہلیز تک پہنچائے جائیں ۔“34 کلام الٰہی کی یہ توجیہ محض کاغذی قانون اور پڑھنے کی حد تک نہیں ہے ،بلکہ اس کے پیچھے عملی نفاذ کی ایک شاندار تاریخ بھی موجود ہے۔ پیغمبر اسلام، خلفاے راشدین اور دیگر مسلم حکمرانوں سے لے کر عامة المسلمين تک ایسے متعدد واقعات اَوراقِ تاریخ میں آپ کو ملیں گے جن سے تاریخ کا چہرہ ضیا یاب ہوا، خصوصاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غیرمسلموں کے ساتھ حسن سلوک کا رویہ اسلامی تاریخ کا روشن باب ہے۔ غیر مسلموں کے ساتھ آپ کا پڑوس رہا، آپ نے ہمیشہ ان کے ساتھ بھلائی اور حسن سلوک کا رویہ اختیار کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو تحفے تحائف دیتے اور ان کے تحفے اور دعوتیں قبول کرتے تھے لیکن دوسری طرف سے اس کا جواب کیا ملا؟ کاش تاریخ کا وہ واقعہ بھی غیرمسلموں کو یاد رہتا کہ ایک یہودی عورت نے آپ کو دعوت پر بلایا اور بکری کے پائے کے گوشت میں زہر ملا کر آپ کو شہید کرنا چاہا تھا۔35 ٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیرمسلم مریضوں کی بیمار پرسی کرتے، ان پر صدقہ و خیرات کرتے، ان کے ساتھ تجارتی لین دین کرتے، کتب ِاحادیث میں یہ واقعہ موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودی گھرانے کو صدقہ دیا کرتے تھے36اور مسلمانوں نے آپ کے بعد اس گھرانے کے صدقہ کو برابر جاری رکھا۔ ابوقتادہ رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ حبشہ سے عیسائیوں کا ایک وفد مدینہ منورہ آیا تو رسول __________________ الفروق ۳/۱۵، الأقلیات الدینیۃ والحل الإسلامي : ۴۵،۴۶ سنن أبي داود :۳۹۱۱ کتاب الأموال، از عبید قاسم بن سلام : ۶۱۳