کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 133
بزمِ طلوع اسلام کو کفر و ارتداد سے مبرا قرار دیا جائے۔“[1]
یوں یہ لوگ علامہ اقبال کے نام کو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے،ان پرویزی حیلوں کے ساتھ استعمال کیا کرتے ہیں ۔سچ ہے :
ع عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے
پاکستان کے سیکولر حکمران (جن کی ذہنی نشوونما مغربی نظریات کا دودہ پی پی کر ہوئی ہے) آج جس طرح کفر کی طاقتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں ، اور ملکی حدود میں جس طرح غیر ملکی سرمایہ کے بل پر NGOs، مسلمانانِ پاکستان میں فکری انتشار اور عملی فساد پیدا کر رہی ہیں ، اُن کے ساتھ منکرین حدیث اپنے لٹریچر کے ذریعہ بالکل اسی طرح تعاون کررہے ہیں جس طرح عہد ِنبوی میں منافقین مدینہ، کفر کی بیرونی طاقتوں کی حمایت و اعانت کیا کرتے تھے۔ خود طلوعِ اسلام کو بھی اس بات کا نہ صرف یہ کہ اعتراف ہے بلکہ اس پر فخر بھی ہے۔ چنانچہ ’عورتوں کے حقوق‘ پر بات کرتے ہوئے طلوعِ اسلام بڑے فخر و انبساط کے ساتھ یہ اعلان کرتا ہے:
”طلوعِ اسلام نے ہی اس کے لئے بہت کثیر تعداد میں مضامین و مقالات طبع کئے ہیں جن کا بہت مفید اثر، نہ صرف عوام پر ہوا ہے، بلکہ عورتوں سے متعلق این جی اوز نے ان سے بھرپور فائدھ اٹھایا ہے۔ راقم سطور کا ذاتی تجربہ ہے کہ ان تمام این جی اوز میں طلوعِ اسلام کی شائع کردہ کتاب ’طاہرہ کے نام خطوط‘ موجود رہتی ہے جس میں عورتوں کے حقوق سے بحث کی گئی ہے۔ اس سے یہ این جی اوز وقتاً فو قتاً فائدہ اُٹھاتے رہتی ہیں ۔“[2]
پرویز صاحب کی ایسی ہی ’قرآنی خدمات‘ پر پیشوایانِ مغرب بڑے شاداں و فرحاں ہیں اور طلوعِ اسلام، عالم کفر میں پرویز صاحب کی پذیرائی اور قدرافزائی پر خوشی سے پھولا نہیں سماتا اور بڑی مسرت و شادمانی کے ساتھ یہ اعلان کرتا ہے:
”ڈاکٹرDr. Freeland Abbot امریکہ کی TUFTS یونیورسٹی کے شعبہٴ تاریخ کے صدر اور بین الاقو امی شہرت کے مالک ہیں ، اُنہوں نے ’اسلام اینڈ پاکستان‘ کے نام سے 1968ء میں ایک بلند پایہ کتاب شائع کی تھی۔ اس میں اُنہوں نے فکر ِپرویز اور تحریک ِطلوع اسلام کے