کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 132
حکومت کویت نے جب غلام احمد پرویز اور اس کے پیروکاروں پر کفر کا فتویٰ جاری کیا تو یہ لوگ بہت سٹپٹائے ”اس ناگہانی صورتحال کے نتیجے میں بزمِ طلوعِ اسلام کے سرکردہ پرویزیوں کا ایک وفد، ہنگامی طور پر اپنے مرکز گلبرگ لاہور سے کویت پہنچا، اور نجی سطح پر اپنا تمام تر اعلیٰ اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے، کویتی سرکاری فتویٰ کی تنسیخ کی سرتوڑ کوشش کی، ساتھ ہی ساتھ ملک معراج خالد اور دیگر بااثر پرویزی سرپرستوں سے،حکومت ِکویت اور بعض اہم شخصیات کے نام خطوط بھی لکھوائے گئے، جن میں غلام احمد پرویز کو نام نہاد مفکر قرآن کی حیثیت سے متعارف کرواتے ہوئے، علامہ اقبال کے فہم قرآن کا وارث قرا ر دیا گیا۔“[1] یوں کویت میں اقبال کے نام کو مقصد برآری کے لئے استعمال کیا گیا۔ لیکن بہرحال جب یہ ساری کوششیں ناکام ہوگئیں اور حکومت ِکویت نے اپنے فتویٰ کو برقرار رکھا تو بزمِ طلوع اسلام کی کویتی شاخ کے ذریعہ عدالتی چارہ جوئی کی گئی تاکہ یہ فتویٰ منسوخ ہوجائے اور ساتھ ہی مولانا احمد علی سراج کے خلاف بھی (جو اس کویتی فتویٰ کے اجرا میں مرکزی کردار تھے) ایک مقدمہ دائر کردیا گیا جس میں ان کی پرویزی مخالفت کو ذاتی مخالفت قرار دیا گیا۔ اس (ناکام) کوشش میں کامیابی پانے کے لئے، جو خیانت کارانہ ہتھکنڈے اختیار کئے گئے ان میں ایک درج ذیل ہے : ”یہاں ایک اور امر بھی قابل غور ہے جس سے بزمِ طلوع اسلام (پرویز لابی) کی ایک اور مکارانہ منافقت خوب عیاں ہوجاتی ہے، اپنی پٹیشن(Petition)میں اس بزم کے موجودہ سربراہ نے حیلہ و دہوکہ دینے کے لئے یہ موقف اختیار کیا کہ غلام احمد پرویز محض ایک شخص تھا جو 1985ء میں مرا۔ بزمِ طلوعِ اسلام، اس کے افکار و نظریات کی پابند نہیں ، بلکہ یہ اقبال کے فکر قرآن کی ترجمان ہے، اور اُسی کو پھیلانے کے مشن پر گامزن ہے، اور اقبال سے عوام و خواص کا کوئی اختلاف نہیں ، اور یہ کہ طلوعِ اسلام نام بھی اقبال ہی کی ایک نظم سے ماخوذ ہے، لہٰذا