کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 131
دونوں بزرگوں کی حقیقی قدروقیمت متعین کرنے میں اختیار کیا کرتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ مودودی رحمۃ اللہ علیہ صاحب سے چند اختلافات کے باوجود اور علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ سے کہیں زیادہ اختلافات کے باوجود، مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی انتہائی شدید مخالفت اور علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی بے تحاشا حمایت، آخر ’مفکر قرآن‘ نے کیوں کی؟
میرے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اور مودودی رحمۃ اللہ علیہ ، دونوں بین الاقوامی شہرت کی حامل شخصیتیں ہیں اور پرویز صاحب خود ہوسِ شہرت کے مریض تھے۔ ’پاپولیریٹی‘ اور ناموری پانے کے لئے اُنہوں نے ان دونوں عالمی شہرت یافتہ ہستیوں میں سے، ایک کی حمایت وپاسداری کو اور دوسرے کی مخالفت و معاندت کو حصولِ مقصد کا ذریعہ بنایا۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی بہاری بہر شخصیت کی مدح سرائی کے نتیجہ میں حقیر سی آہنی کیل کو بھی وزنی لکڑی کے ساتھ تیرنے کا موقع مل گیا، اور دوسری طرف مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ مسلسل ٹکراتے رہنے کو پرویز صاحب نے تمنا برآری کا ذریعہ سمجھا، یہ الگ بات ہے کہ چھپکلی خواہ کتنی ہی بلند بام ہوجائے، وہ بہرحال چھپکلی ہی رہتی ہے۔ اونچے شہتیروں اور بلند ستونوں سے اُلجھنے سے اس کی قدر ومنزلت میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔
علاوہ ازیں مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی مخالفت میں یہ عامل بھی کارفرما نظر آتا ہے کہ چونکہ سیاسی میدان میں سیکولر مزاج حکمرانوں کی طرف سے مودودی رحمۃ اللہ علیہ صاحب کی مخالفت پہلے سے موجود تھی، اس لئے پرویز صاحب نے یہ محسوس کیا کہ اگر وہ اسی مخالفت میں شامل ہوجائیں تو یہ روش ان کی شہرت میں اضافے کا باعث بھی ہوگی اور حکمرانوں کے بھی وہ منظورِ نظر رہیں گے، دوسری طرف اقبال کو قومی شاعر ہونے کی بنا پر اُمت ِمسلمہ میں جو احترام، عزت اور پذیرائی حاصل ہے، اس کی بنا پر ان کی حمایت و ہم نوائی، ان کی شہرت کے لئے موجب ِمنفعت ہوگی، نام اقبال سے فائدہ اٹھانے کی یہ وہی ٹیکنیک ہے جو یہود و نصاریٰ جیسی گمراہ قوموں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام وغیرہ کے ناموں سے فائدہ اٹھانے کے لئے اپنا رکھی تھی جیسا کہ مندرجہ ذیل واقعہ سے واضح ہے :