کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 130
اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا نام ذریعہ مطلب برآری
علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اور پرویز صاحب کے یہ چند اختلافات، مشتے نمونہ از خروارے محض سرسری طور پر پیش کئے گئے ہیں ، ورنہ اگر غائر نگہی سے جملہ اختلافات کا کہوج لگایا جائے تو ایسے کثیر التعداد اختلافات کی کثرت پرانسان انگشت بدنداں رہ جائے۔ تصوف کے اُمور میں تو اقبال اور پرویز کے ا ختلافات کی بہت سی مثالیں خود پرویز صاحب نے اپنی کتاب ’تصوف کی حقیقت‘ میں پیش کی ہیں ، لیکن اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ اس قدر برسراختلاف رہنے کے باوجود بھی پرویز صاحب نہ صرف یہ کہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں انتہائی نرم گوشہ رکھتے تھے، بلکہ وہ خود کو(اور طلوعِ اسلام کو)فکر ِاقبال کا شارح اور وارث قرار دیتے تھے :
”فکر ِاقبال کی یہ متاعِ عزیز، آج بزمہائے طلوعِ اسلام کا بیش بہا سرمایہ ہے، اور یہ کاروانِ شوق اس سرمائے کا حقیقی وارث بھی ہے اور مخلص ترین امین بھی۔“[1]
فکر ِاقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تفہیم، خدمت اور اشاعت اگرچہ دوسرے گوشوں سے بھی ہورہی ہے، لیکن وابستگانِ طلوعِ اسلام، پیغامِ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے صحیح اور حقیقی فہم کا واحد اور موٴثر ذریعہ… اقبال کے ساتھ جملہ اختلافات کے باوجود… صرف پرویز ہی کو تسلیم کرتے ہیں :
”اقبال رحمۃ اللہ علیہ کو سمجھنے کے لئے تاریخ و فلسفہ کی وسیع واقفیت و استحضار کے ساتھ، قرآنِ حکیم پر بھی حکیمانہ نظر کی ضرورت ہے اور اقبال پر لکھنے اور بولنے والوں میں ، یہ جامعیت خال خال نظر آتی ہے، اور خوش قسمتی سے پرویز صاحب کو فطرت نے ایسا ہی جامع ذہن عطا کیا ہے۔“[2]
پرویز صاحب کے پورے لٹریچر اور طلوعِ اسلام کی مکمل فائل کی روشنی میں ، اگر کوئی شخص، اُن کے اور مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے درمیان باہمی ا ختلافات کا جائزہ لے تو وہ ان کی تعداد ان اختلافات سے بہت کم پائے گا جو پرویز صاحب اور علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے درمیان پائے جاتے ہیں ، لیکن ’مفکر ِقرآن‘ نے (عدل و انصاف، امانت و دیانت اور حق و صداقت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے) مودودی رحمۃ اللہ علیہ صاحب کی مخالفت میں توجس انتہائی شدت و غلظت، درشت خوئی اور تلخ نوائی سے کام لیا ہے، وہ ان کے اس دُہرے معیار اور جانبدارانہ رویے کا غماز ہے، جو وہ