کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 129
پینے کی جگہ معلوم کرلی۔“
آیت مع ترجمہ پرویز پیش کردی گئی۔ یہ ترجمہ معارف القرآن، جلد سوم/ صفحہ 274 سے ماخوذ ہے۔ اس وقت پرویز صاحب معجزات کے قائل تھے، لیکن بعد میں جب اُنہوں نے انکارِ معجزات کا مسلک اپنایا تو پھر اسی آیت کا مفہوم مندرجہ ذیل الفاظ میں پیش فرمایا:
”تم اپنی تاریخ کے اس واقعہ کو بھی یاد کرو جب تمہیں پانی کی دقت ہوئی اور موسیٰ نے اس کے لئے ہم سے درخواست کی تو ہم نے اس کی رہنمائی، اس مقام کی طرف کردی جہاں پانی کے چشمے مستور تھے۔ وہ اپنی جماعت کو لے کر وہاں پہنچا، چٹان پر سے مٹی ہٹائی تو اس میں سے ایک دو نہیں بلکہ اکٹھے بارہ چشمے پھوٹ نکلے، اس نے ان چشموں کو نامزد کردیا اور ہر قبیلہ کو بتادیا کہ ان کا چشمہ کون سا ہے؟“[1]
اس مفہوم میں ضربِ عصا کے نتیجہ میں بارہ چشموں کے پھوٹ نکلنے کا معجزہ تلاش کرپانا بجائے خود معجزہ ہوگا، جبکہ آیت کے مقابل دیے ہوئے ترجمہ پرویز میں معجزے کا ذکر واضح ہی ہے۔ شعر اقبال اور آیت کے مفہومِ پرویز میں ضربِ عصاے موسوی کے معجزہ کی بابت دونوں کا اختلاف واضح ہے۔
٭ دوسرا معجزہ انفلاقِ بحرکا معجزہ ہے، آیت مع ترجمہ پرویز ملاحظہ فرمائیے :
﴿فَاَوْحَيْنَا إلٰى مُوْسىٰ اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْبَحْرَ فَانْفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْق كَالطَّوْدِ الْعَظِيْمِ ﴾ (الشعراء:63)
”اور ہم نے موسیٰ کو وحی بھیجی کہ اپنے عصا سے سمندر کو مارو، پس وہ پھٹ گیا اور ہر حصہ ایک بڑے تودے کی طرح تھا۔“[2]
اب اسی آیت کا وہ مفہوم بھی ملاحظہ فرمائیے جو پرویز صاحب نے انکار ِمعجزات کا مسلک اپنانے کے بعد پیش کیا ہے :
”چنانچہ ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ اپنی جماعت کو لے کر (فلاں سمت سے) سمندر (یا دریا) کی طرف چلو اور وہاں سے انہیں اس راستے سے پار لے جاؤجو خشک ہوچکا ہے۔“[3]