کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 128
اگرچہ تفسیر قرآن کے لئے وہ اس اُصولی ہدایت پربھی زور دیتے ہیں جو محض لطف ِوعظ کے لئے ہے، عمل کے لئے نہیں ہے : ”آپ جس موضوع کے متعلق معلوم کرنا چاہیں کہ قرآن نے اس باب میں کیا کہا ہے، قرآن کے وہ تمام مقامات، آپ کے سامنے ہوں ، جن میں اس نے اس موضوع کے متعلق کچھ کہا ہے، صراحتہ، کنایةً، استعارةً، تائیداً، تردیداً، اسے تصریف ِآیات کہتے ہیں ۔“[1] اور خلاف ِمطلب آیات سے چشم پوشی کرنا، شاید صرف عن الآیات یا تصرف فی الآیات کہلاتا ہے۔ بارہواں اور تیرہواں اختلاف بسلسلہٴ معجزہٴ عصاے موسیٰ عصاے موسوی کے حوالہ سے قرآن میں بیان کردہ معجزات میں سے دو معجزوں کا ذکر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے الوقت سيف کے زیر عنوان ان الفاظ میں کیا ہے : سنگ از یک ضربت او تر شود بحر از محرومی نم بر شود[2] ” اس کی ایک ضرب سے پتھر پانی ہوجاتے ہیں اور سمندر پانی سے محروم ہوکرخشکی بن جاتا ہے۔“[3] دوسرے معجزہ کا ذکر اسی نظم میں ایک اور شعر میں بھی یوں کیا گیا ہے : سینہٴ دریاے احمر چاک کرد قلزمے را خشک مثل خاک کرد[4] ”اُنہوں نے بحر احمر کا سینہ چاک کردیا اور سمندر کو مٹی کی مانند خشک بنا دیا۔“[5] ﴿وَإذِ اسْتَسْقٰى مُوْسٰى لِقَوْمِه فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ فَانْفَجَرَتْ مِنْه اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا قَدْ عَلِمَ كُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَهمْ﴾ (البقرة :60) ”اور پھر (وہ واقعہ یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لئے پانی طلب کیا تھا، اور ہم نے حکم دیا تھا کہ ’اپنی لاٹھی سے پہاڑ کی چٹان پر ضرب لگاؤ‘ (تم دیکھو گے کہ پانی تمہارے لئے موجود ہے، موسیٰ نے اس حکم کی تعمیل کی) چنانچہ بارہ چشمے پھوٹ نکلے، اور تمام لوگوں نے اپنے اپنے