کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 127
حضرت ابراہیم علیہ السلام اس سے پہلے کہ وہ اپنے منصوبے پر عمل پیرا ہوتے وہاں سے ہجرت فرما گئے۔ چنانچہ پرویز صاحب لکھتے ہیں :
”اس سرکش قوم نے اپنے جوشِ انتقام میں یہ منصوبہ باندہا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ کے انبار میں ڈال دیا جائے تاکہ ان کے معبود روز روز کی تحقیر و تذلیل سے محفوظ ہوجائیں ، لیکن قبل اس کے کہ وہ ان پر ہاتھ ڈالتے، اب حکم خداوندی کے مطابق وہاں سے چپکے سے ہجرت کرگئے اور یوں وہ قوم اپنے ارادوں میں ناکام رہی۔“[1]
’مفکر ِقرآن‘ یا کسی منکر ِحدیث سے یہ مت پوچھئے کہ اگر ابراہیم علیہ السلام آگ میں ڈالے جانے سے پہلے ہی ہجرت فرما گئے تھے، تو پھر اللہ کو آگ سے مخاطب ہوتے ہوئے کس کے لئے اور کیوں یہ کہنے کی ضرورت پڑی کہ”اے آگ! تو سلامتی کے ساتھ ابراہیم پر ٹھنڈی ہوجا۔“ ورنہ انکارِ معجزہ کی یہ پوری عمارت، دہڑام سے نیچے آن گرے گی۔
یہاں قارئین کرام کے لئے یہ بات حیرت اور دلچسپی کا باعث ہوگی کہ ’جوئے نور‘ کی تصنیف سے پہلے ’معارف القرآن‘ جلد سوم جب تصنیف کی گئی تھی تو حضر ت ابراہیم علیہ السلام کے آگ میں ڈالے جانے کا واقعہ اور ان پر آگ کی حرارت کے بے اثر ہوجانے کا معجزہ صفحہ27 پر خود پرویز صاحب نے بیان کیا تھا۔ لیکن جب ’جوئے نور‘ میں سرگزشت ِابراہیم علیہ السلام کو منتقل کیا گیا تو یہ موقف اپنایا گیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام تو آگ میں ڈالے جانے سے پہلے ہی نقل مکانی فرما چکے تھے، یوں اعترافِ معجزہ سے بال بال بچ جانے کا یہ حیلہ تراشا گیا۔ اب رہی سورة الانبیاء کی آیت نمبر 69، جو اس معجزہ کی اصل و اساس ہے اور جس میں آگ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام پر سلامتی کے ساتہ ٹھنڈی ہوجانے کا حکمِ خداوندی مذکور ہے، تو اسے ’جوئے نور‘ میں دیدہ دانستہ حذف کردیا گیا کیونکہ اب یہ آیت ’مفکر ِقرآن‘ صاحب کے تبدیل شدہ موقف کے خلاف تھی، اور اس سے بھی عبرتناک بات یہ ہے کہ’مفکر ِقرآن‘ بڑے دھڑلے سے یہ اعلان بھی کرتے رہے ہیں :
”طلوعِ اسلام اسے بدترین جرم سمجھتا ہے کہ قرآن کی کسی آیت کو اس لئے سامنے نہ لایا جائے کہ وہ اس کے کسی پیش کردہ مسئلہ کے خلاف جاتی ہے۔“[2]