کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 126
مسلک اپنانے سے قبل ان پر ایک ایسا دور بھی گزرا ہے، جبکہ وہ انبیاے متقدمین کے معجزات کے (بظاہر) قائل تھے، اور معارف القرآن نامی سلسلہٴ کتب میں وہ ان معجزات کو تسلیم کرتے رہے ہیں ، لیکن ان ہی کتب کو جب ’جوئے نور‘ ، ’برقِ طور‘ اور’ شعلہٴ مستور‘ وغیرہ کتب میں ڈہالا تو ہر معجزے کا انکار کردیا، اور جن آیات میں ان معجزات کا ذکر ہے، اُنہیں مجازی معانی کی آڑ میں اپنی بدترین تحریفات کا اس طرح نشانہ بنایا کہ (ماضی کے) فرقہ باطنیہ کی طرف سے قرآن کے باطنی معانی کی آڑ میں کی گئی تحریفات بھی ’مفکر قرآن‘ کی تحریفات کے سامنے ماند پڑ گئیں ۔ ان تحریفات کا تفصیلی پوسٹ مارٹم کرنا چونکہ میرے پیش نظر نہیں ہے، اس لئے میں بڑے اختصار کے ساتھ قرآن میں مذکور صرف ان معجزات تک ہی اپنی بحث کو محدود رکھنے پر مجبور ہوں جو علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اور پرویز صاحب کے درمیان مختلف فیہ رہے ہیں ۔ گیارہواں اختلاف ’ آگ اور معجزہ ٴ ابراہیمی‘ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس معجزہ کے قائل ہیں جسے قرآنِ کریم نے ﴿يٰنَارُكُوْنِيْ بَرْدًا وَّسَلَامًا عَلىٰ إبْرَاهيْمَ﴾کے الفاظ میں پیش کیا ہے، وہ تلمیحا ً اس کا ذکر یوں فرماتے ہیں : ز انکہ مارا فطرتِ ابراہیمی است ہم بہ مولیٰ نسبت ابراہیمی است از تہ آتش براندازیم گل نارِ ہر نمرود را سازیم گل شعلہ ہائے انقلاب روزگار چوں بباغ مارسد گردد بہار[1] ”(یعنی ) چونکہ ہماری فطرت ابراہیمی ہے، اور اللہ تعالیٰ سے ہماری نسبت بھی ابراہیمی ہے۔ اس لئے ہم ہر آگ کے اندر سے پھول کہلاتے ہیں اور ہر نمرود کی آگ کو گلستان بنا دیتے ہیں ۔ جب زمانے کے انقلابات کے شعلے ہمارے باغ تک پہنچتے ہیں تو وہ بہار بن جاتے ہیں ۔“[2] علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے یہ اشعار اس امر کی دلیل ہیں کہ وہ نارِ نمرود کے گل و گلزار ہوجانے کے معجزہٴ ابراہیمی کے قائل و معتقد تھے جبکہ ’مفکر ِقرآن‘ اس کے قطعی منکر ہیں اور اس واقعہ کو یوں بیان کرتے ہیں کہ قومِ نمرود نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینکنے کا منصوبہ تو بنایا تھا لیکن