کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 125
صاحب تھے کہ وہ تقلید کو دو قسموں میں تقسیم کرکے ایک قسم کی تقلید کی زبردست مخالفت کیا کرتے تھے اور دوسری قسم کی تقلید کو جامد انداز میں اپنائے ہوئے تھے۔ اسلاف ِصالحین کی پیروی و اطاعت کا معاملہ ہو تو وہ ایک لمبی آہ سرد بھر کر، آنکھوں میں آنسو لاتے ہوئے یہ کہا کرتے تھے کہ ع آہ! محکومی و تقلید و سوال تحقیق لیکن ائمہ مغرب کی تقلید کا معاملہ ہو تو ان کے ’دل کی پوشیدہ بے تابیاں ‘ اور’دیدہ ترکی بے خوابیاں ‘ ان کے ’نالہ نیم شب کا نیاز‘ اور ان کے ’خلوت و انجمن کا گداز‘ اسے ’وقت کا تقاضا‘ قرار دے کر سند ِجواز بخش دیتا تھا۔ حالانکہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اپنی زندگی کے آخری لمحے تک ’تقلید ِمغرب‘ کی مخالفت کرتے رہے ہیں ۔ اور یہ کسی ماں کے لعل کے بس کا روگ نہیں ہے کہ وہ تقلید ِجامد کے حق میں کوئی ایسی توجیہ پیش کرسکے جیسی پرویز صاحب نے تقلید ِقدیم کی مخالفت میں کی ہے جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ ڈارون، مارکس اور دیگر ائمہ مغرب کی تقلید سے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں مرتبہ یہ بہتر ہے کہ مسلم فقہا میں سے کسی کی اتباع کی جائے، لیکن پرویز صاحب نام کے’غلام احمد‘ تھے، کام کے ’غلام احمد‘ نہ تھے اور اصلاً وہ ’غلامِ مغرب‘ تھے، اس لئے اُنہیں فقہاے اربعہ کی صورت میں ’غلامانِ احمد‘ کی بجائے فرنگی تہذیب کے ’عالمانِ مغرب‘ ہی عزیز تر تہے، اس لئے وہ اُن ہی کی تقلید و پیروی کرتے رہے ہیں ، جس کے نتیجے میں ’مفکر ِقرآن‘ نے بڑی جانگسل محنتوں اور جگر پاش مشقتوں کے ساتھ قرآن مجید سے وہ کچھ کشید کرڈالا جسے اہل مغرب بغیر کسی قرآن کے پہلے ہی سے اپنائے ہوئے ہیں ۔ دسواں اختلاف معجزات کے بارہ میں علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اور پرویز صاحب میں جو اُمور مختلف فیہ تھے، ان میں ایک بڑا اور اہم اختلاف معجزات کے بارے میں بھی تھا۔ اوّل الذکر کے بارے میں موٴخر الذکر خود شہادت دیتے ہیں کہ ”آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کے قائل تھے۔“[1] صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے نہیں بلکہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ جملہ انبیا کے جملہ معجزات کے قائل تھے۔لیکن اس کے برعکس پرویز صاحب معجزات کے قطعی منکر تھے۔اگرچہ انکارِ معجزات کا