کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 123
بزم اقوام کہن برہم ازو شاخسار زندگی بے نم ازو جلوہ اش مارا زما بیگانہ کرد ساز مارا از نوا بیگانہ کرد از دل ما آتش دیرینہ بُرد نور و نار لا إلہ از سینہ برد مضمحل گردد چوں تقدیم حیات ملت از تقلید می گیرد ثبات راہ آباء رو کہ ایں جمعیت است معنی تقلید ضبط ملت است[1] ”موجودہ دور اپنے اندر بہت سے فتنے رکھتا ہے، اس کی بے باک طبیعت سراپا آفت ہے۔ عہد ِحاضر نے گذشتہ اقوام کی بزم کو برہم کردیا اور زندگی کی شاخوں کو نمی سے محروم کردیا۔ دورِ جدید کے جلوؤں نے اپنا آپ بہلا دیا ہے، اور ہمارے سازِ زندگی کو نغمہ سے محروم کردیا۔ اس نے ہمارے دل سے عشق کی قدیم آگ چھین لی ہے اور ہمارے سینوں سے لا الٰہ کا نور ونار نکال دیا ہے۔ جب زندگی کی ساخت کمزور پڑ جاتی ہے تو اس وقت قوم تقلید ہی سے استحکام پاتی ہے۔اپنے آبا کے راستے پر چل کر اسی میں جمعیت ہے۔ تقلید کا مطلب ملت کو ایک ضبط کے تحت لانا ہے۔[2] قدرے اور آگے چل کر وہ فرماتے ہیں : اے پریشاں محفل دیرینہ ات مُرد شمع زندگی در سینہ ات نقش بر دل معنی توحید کن چارہٴ کار خود از تقلید کن اجتہاد اندر زمان انحطاط قوم را برہم ہمیں پیچد بساط ز اجتہاد عالمانِ کم نظر اقتدا بر رفتگاں محفوظ تر[3] ” اے مسلمان! تیری قدیم محفل پریشان ہوچکی، اور تیرے سینے میں شمع زندگی بجھ گئی۔ اپنے دل پر دوبارہ نقش توحید کندہ کر، اور تقلید ِاسلاف سے چارہ سازی کر۔ انحطاط کے زمانہ میں اجتہاد قوم کا شیرازہ بکھیر دیتا اور اس کی بساط لپیٹ دیتا ہے۔ کوتاہ نظر عالموں کے اجتہاد سے، اسلاف کی پیروی زیادہ محفوظ راستہ ہے۔“[4] لیکن پرویز صاحب تقلید کی زبردست مخالفت کرتے ہوئے اسے اللہ کے حضور ناقابل