کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 122
” نائب حق، اس کائنات کی جان کی مانند ہے اور اس کا وجود اسم اعظم کا سایہ ہے۔“[1]
لیکن پرویز صاحب نہ تو خلافت ِالٰہیہ کے قائل ہیں اور نہ ہی انسان کو خليفة اللہ مانتے ہیں ۔ ان کے نزدیک یہ تصور ہی غیر قرآنی ہے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
1. اصل یہ ہے کہ اس قسم کے باطل تصورات کا بنیادی سبب وہ عقیدہ ہے جو ہمارے ہاں صدیوں سے چلا آرہا ہے کہ خدا نے انسان کو اپنا خلیفہ بنایا ہے۔ یہ عقیدہ قرآنی تعلیم کے یکسر خلاف ہے۔[2]
2. یہ جو ہمارے ہاں عام طور پرکہا جاتا ہے کہ خدا نے آدم کو اپنا خلیفہ بنایا تو یہ تصور غیر قرآنی ہے۔ قرآن میں کہیں نہیں آیا کہ خدا نے آد م کو اپنا خلیفہ بنایا ہے، یہ عیسائیت کا تصور ہے۔[3]
3. ہمارے ہاں ایک غلط تصو ریہ بھی رائج ہے کہ انسان دنیا میں خدا کا خلیفہ ہے (خليفة الله في الأرض) یہ تصور بھی قرآن کے خلاف ہے۔[4]
انسان کا خلیفة اللہ ہونا ، وہ موقف ہے جو پرویز صاحب کے نزدیک قطعی خلافِ قرآن ہے جبکہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اسے ایک اسلامی حقیقت قرار دیتے ہیں ۔بہرحال اس بارے میں صحیح شرعی نقطہ نظر کیا ہے؟ چونکہ یہ ایک مستقل موضوع ہے، اس لئے محض علامہ اقبال اور پرویز میں اس فکری تضاد کی نشاندہی پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
نواں اختلاف بسلسلہٴ تقلید
علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اور پرویز صاحب کے درمیان واقع اختلافی مسائل میں سے ایک مسئلہ تقلید کا مسئلہ بھی ہے۔ تقلید کی شرعی حیثیت سے قطع نظر کرتے ہوئے ایک تاریخی حقیقت کے طور پر اگر اس مسئلہ کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پرویز صاحب تقلید کے خلاف ہیں ، جبکہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اس دورِ پُرفتن میں تقلید ِاسلاف پر زور دیتے ہیں ۔ چنانچہ وہ اس عنوان کے تحت کہ’درمعنی ٴایں کہ در زمانہٴ انحطاط ’تقلید از اجتہاد اولیٰ تراست‘ فرماتے ہیں :
عہد حاضر فتنہ ہا زیر سر است طبع نا پردائے او آفت گراست