کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 121
نہیں چاہتے، اسلئے وہ خود تو علامہ کے دورِ ماضی کے خیالات کو پیش کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے لیکن دوسروں کو وہ یہی حکم دیتے ہیں کہ وہ ایسا نہ کریں ، اوروں کو نصیحت خود میاں فضیحت!
رہا ’مفکر قرآن‘ صاحب کی طرف سے نظر انداز شدہ حقیقت کا یہ حصہ کہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اپنے آخری دور ِ زندگی میں پھر تصوف کے قائل ہوگئے تھے تو اس کا ثبوت بھی طلوعِ اسلام ہی کی فائل سے پیش کیا جارہا ہے تاکہ’مفکر قرآن‘ کی دھوکہ دہی اور فریب کاری طشت ازبام ہوجائے:
”یاد رہے کہ تصوف کے متعلق اقبال کے نظریات ہمیشہ ہی متنازعہ رہے ہیں ، کسی زمانہ میں وہ تصوف کے دل دادہ تھے، پھر ایک زمانہ آیا کہ وہ اس کو مسلمانوں کے زوال کا سبب سمجھنے لگے، اس زمانے میں اُنہوں نے ’تصوف؛ شعبدہ بازیوں کی کمند‘ جیسا مضمون تحریر کیا، اس کے علاوہ وہ تصوف کو اسلام کی سرزمین میں اجنبی پودا بھی کہا کرتے تھے، اور اس کے بعد عمر کے آخری حصے میں پھر اسی طرف آگئے۔“[1]
اب رہا یہ سوال کہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کس تصوف کو مسلمانوں کے زوال کا سبب سمجھتے تھے اور کس تصوف کے وہ عمر بھر دلدادہ رہے، اور کس تصو ف کو وہ سرزمین اسلام میں عمجی پودا قرار دیتے تھے تو اس پر میں پرویز کے پورے لٹریچر کی روشنی میں کبھی تفصیلی مقالہ لکھوں گا۔ ان شاء اللہ
آٹھواں اختلاف بسلسلہٴ ’خلافت ِالٰہیہ‘
مصورِ پاکستان علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اور ’مفکر ِقرآن‘ پرویز صاحب کے درمیان دوسرا اختلافی مسئلہ انسان کا خليفة اللہ ہونا ہے۔ پرویز صاحب اس کے قائل نہیں ہیں جبکہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ حضرت انسان کی نیابت ِالٰہیہ کے قائل ہیں ۔ ان کا یہ موقف مندرجہ ذیل اشعار میں مذکور ہے :
نائب حق درجہاں بودن خوش است
بر عناصر حکمراں بودن خوش است[2]
” دنیا میں اللہ تعالیٰ کا نائب ہونا اور عناصر فطرت پر حکمرانی کرنا کیا خوب ہے“[3]
نائب حق، ہمچو جانِ عالم است
ہستی او ظل اسم اعظم است[4]