کتاب: محدث شمارہ 308 - صفحہ 120
نقیض کے طور پر پیش کیا ہے، اور یہ کچھ اُنہوں نے پوری کی بجائے، اُدہوری بات پیش کرتے ہوئے کیا ہے، اور دوسرا مغالطہ یہ دیا ہے کہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے متصوفانہ اُمورو واقعات کو اُن کے ’قرآنی حقائق سے متعارف‘ ہونے کے دور سے قبل کے واقعات قرار دیا ہے اور ساتھ ہی یہ تاثر دیا ہے کہ ان کی زندگی کا آخری دور چونکہ’قرآنی حقائق سے متعارف‘ ہونے کا دور تھا، اس لئے ان کے اس دورِ سابق کے خیالات سند نہیں ہوسکتے جس میں قرآنی حقائق سے وہ ’جاہل و بے خبر‘ تھے، چنانچہ وھ لکھتے ہیں :
”انکی اوّلین تحریروں کو ان کے خیالات کی ترجمانی کیلئے بطورِ سند پیش نہیں کرنا چاہئے۔“[1]
یاد رکھئے کہ اس معاملہ میں پوری حقیقت یہ ہے کہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ (بقول طلوعِ اسلام) آخری عمر میں پھر اسی تصوف کی طرف لوٹ گئے تھے جو علما کے ہاں بھی اور خود پرویز صاحب کے ہاں بھی اسلام کا مقصود ومطلوب تھا۔٭ لیکن پرویز صاحب چونکہ اب خود تصوف کے خلاف ہوچکے تھے، اس لئے وہ یہ اُدہوری حقیقت تو پیش کرتے ہیں کہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ ’قرآنی حقائق سے متعارف‘ ہونے کے بعد تصوف کے قائل نہیں رہے تھے، لہٰذا ان کے سابقہ دور کے خیالات کو بطورِ سند پیش نہ کیا جائے۔ لیکن وہ یہاں اس حقیقت کو پردہٴ اخفا میں رکھتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی کے آخری دور میں پھر تصوف کے قائل ہوگئے تھے، اور یہ الفاظ کہ …’ ’اقبال کے دورِ سابق کے خیالات کو بطورِ سند پیش نہیں کرنا چاہئے۔“… خود ’مفکر ِقرآن‘ ہی کے سامنے ایک ایسا آئینہ پیش کردیتے ہیں جس میں اُنہیں دوبارہ اپنا چہرہ دیکھنا چاہئے، لیکن چونکہ وہ یہ آئینہ دیکھنا